عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس سے متعلق انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر مبہم اور افواہوں پر مبنی معلومات کے انتہائی تیزی سے پھیلاؤ کے بعد وبا سے متعلق پھیلنے والی غلط معلومات کے خلاف جدوجہد کو انفوڈیمک کا نام دیا ہے۔

یعنی عالمی ادارہ صحت نے عالمی وبا سے متعلق پھیلنے والی مبہم معلومات اور اس سے بچاؤ کے دیسی ٹوٹکوں کو بھی ایک طرح کی وبا قرار دیا ہے۔

اگر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا جائزہ لیا جائے تو عالمی وبا اور اس سے تحفظ کے حوالے سے بہت ہی زیادہ غلط اور منفی معلومات دیکھنے کو ملیں گی اور ایسی معلومات لوگوں کو ذہنی طور پر بھی پریشان کر رہی ہے۔

یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کورونا سے متعلق مستند معلومات کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائیں؟

ہم قارئین کو درج ذیل میں کچھ ایسی ہی ٹپس دے رہے ہیں، جن کی مدد سے وہ درست اور مستند معلومات تک رسائی حاصل کرسکتےہیں۔

ہر معلومات میں ذریعہ تلاش کریں

اگر آپ کو کورونا وائرس سے متعلق کوئی بھی معلومات آن لائن موصول ہوتی ہیں تو انہیں کسی اور کی جانب بھیجنے سے قبل ان پر غور کریں اور ان میں دی گئی معلومات کی تصدیق کے لیے اس کا ذریعہ یا سورس جان لیں۔

یعنی اس پیغام کو دیکھیں اور سوچیں کہ جو اس میں بات کہی گئی ہے، وہ کس نے کہی ہے اور اس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پیغام کی معلومات کہاں سے لی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے متعلق جعلی ’ایمرجنسی‘ الرٹ وائرل

واٹس ایپ کے اس دور میں زیادہ تر لوگ کاپی پیسٹ کے ذریعے غیر مستند پیغامات کو آگے پھیلا رہے ہیں۔

اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ حال ہی میں ڈان نے سوشل میڈیا پر پھیلنے والے ایک جعلی نوٹی فکیشن کا جائزہ لیا تھا جس میں وزارت صحت کے حوالے سے لوگوں کو مشورہ دیا گیا تھا کہ کورونا سے بچنے کے لیے نمکین پانی سے گلے کو صاف کریں، تاہم درحقیقت حکومت کی جانب سے ایسا کوئی بھی نوٹی فکیشن نہ تو جاری کیا گیا اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز دی گئی تھی۔

اب تک وزارت صحت کی جانب سے صرف ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنے، بار بار ہاتھ دھونے اور فیس ماسک پہننے جیسی ہدایات ہی جاری کی گئی ہیں۔

جب ڈان نے اس ضمن میں مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سوشل میڈیا صارفین کاپی اور پیسٹ پر عمل کرتے ہوئے مذکورہ معلومات کو کینیڈا اور انڈیا کے عہدیداروں کی جانب سے جاری کی گئی معلومات سے اٹھا کر پھیلا رہے ہیں۔

مستند معلومات کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائے؟

اس وقت جب کہ ہر کوئی سوشل میڈیا پر کورونا وائرس سے متعلق اپنے اسٹیٹس اپڈیٹ کرنے میں مصروف ہے، ایسے میں ہر معلومات پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔

اگر سوشل میڈیا پر پھیلنے والی تمام معلومات پر یقین نہیں کیا جا سکتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستند معلومات کہاں سے اور کیسے حاصل کی جائیں؟

اس ضمن میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے عالمی وبا سے متعلق واٹس ایپ نمبر 41798931892 + جاری کر رکھا ہے، اس نمبر کو اپنی کانٹیکٹ لسٹ میں محفوظ کرکے اسی نمبر سے اہم معلومات منگوائی جا سکتی ہے۔

مذکورہ نمبر کے ذریعے عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس کے دنیا بھر کے مستند اعداد و شمار سمیت اہم عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی گئی حفاظتی تدابیر بھی شیئر کرتا ہے۔

دنیا کے علاوہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متعلق مستند معلومات اور خبریں حکومتوں کی جانب سے بنائی گئی خصوصی ایپلیکیشنزو یا ویب سائٹس سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

پاکستان کے حوالے سے وفاقی وزارت صحت کی جانب سے بنائی گئی ویب سائٹ (http://covid.gov.pk/) سمیت حکومت کی جانب سے دیے گئے ہاٹ لائن نمبر 1166 سے بھی مستند معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

علاوہ ازیں صوبائی حکومتوں کی جانب سے فراہم کردہ مستند سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی معلومات کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔

اس حوالے سے سندھ کی معلومات حکومت سندھ کی جانب سے ٹوئٹر ہینڈل ‘Gos-Covid19’ (@19Sindh، خیبر پختونخواہ کی معلومات @HealthKPGovt سمیت فیس بک سے، بلوچستان کی معلومات @HealthDeptBlo سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

غلط اور درست نوٹی فکیشن میں فرق کیسے جانا جائے؟

اس ضمن میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک نوٹی فکیشن کی مثال لے لیں، جس میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب کے شہر راولپنڈی کے دی بینک آف دی پنجاب کے ایک ملازم میں کورونا کی تشخیص کے بعد بینک کو بند کردیا گیا۔

سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیلنے والے نوٹی فکیشن کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ بینک کی جانب سے اندرونی طور پر جاری کیا گیا۔

تاہم خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ وائرل ہونے والا مذکورہ نوٹی فکیشن جعلی ہے، لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ عام لوگ اس کی تصدیق کیسے کریں؟

اس حوالے سے عام افراد کو مذکورہ بینک کی ویب سائٹ اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر معلومات کی تصدیق کرنی چاہیے، کیوں کہ اگر کوئی بھی ایسا واقعہ ہوا ہوگا تو بینک لازمی طور پر صارفین کو مطلع کرے گا۔

کسی بھی قسم معلومات کو آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تصدیق کرلیں

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے ساتھ ہی دنیا بھر میں غلط معلومات بھی تیزی سے پھیل رہی ہیں تاہم تھوڑی سی محنت سے کسی بھی غلط معلومات کو آگے بڑھانے سے روکا جا سکتا ہے۔

اس حوالے سے پاکستان میں تازہ مثال یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر یہ خبریں وائرل رہیں کہ جلد ہی پاکستانی فوج ملک بھر میں اسپرے کرنا شروع کردے گی اور اس خبر کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے منسلک کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نصف شب میں کیڑے مار دوا اسپرے کرنے کا زیر گردش میسج جھوٹا ہے، آئی ایس پی آر

تاہم درحقیقت ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا لیکن لوگوں نے آئی ایس پی آر کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کو چیک کیے بغیر اس معلومات کو پھیلایا جو غلط تھیں۔

اس حوالے سے ایک آسان ٹپس عالمی صحافتی اداروں کی جانب سے بنائی گئی ویب سائٹ فرسٹ ڈرافٹ بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے، جس میں دنیا بھر سے کورونا سے متعلق پھیلنے والی غلط افواہوں سے متعلق درست معلومات کو دیکھا جا سکتا ہے۔

اس لیے کسی بھی معلومات کو آگے بڑھانے سے قبل اس کی تھوڑی سے تصدیق کرلیں اور اگر معلومات اصل ذرائع سے تصدیق ہوجائیں تو اسے آگے بڑھائیں، ورنہ اسے آگے بڑھانے سے گریز کریں۔

دیسی ٹوٹکوں سے دور رہیں

کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلنے کے ساتھ ہی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر کورونا سے بچاؤ کے دیسی ٹوٹکے بھی تیزی سے شیئر ہورہے ہیں اور لوگ اپنے دوستوں اور اہل خانہ کو بھی مذکورہ دیسی ٹوٹکوں کے پیغامات بھجواتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس حوالے سے لہسن، ادرک، پیاز کے استعمال سمیت نیموں پانی اور کینو کے جوس سمیت نمکین پانی کے استعمال کے ٹوٹکے بھی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔

ایسے ہی ٹوٹکوں پر عمل کرنے کی وجہ سے ایران میں پہلے شراب پینے سے 27 افراد ہلاک ہوئے اور بعد میں زہریلا کیمیکل پینے سے 480 افراد ہلاک ہوئے اور یہ سلسلہ ایران کے علاوہ بھی دیگر ممالک میں دیکھا گیا۔

تو اس ضمن میں فوری طور پر دیسی ٹوٹکوں سے دور رہیں اور صرف عالمی ادارہ صحت اور حکومتوں کی جانب سے دی گئی مستند ہدایات پر عمل کریں۔

سب سے اہم اور آخری بات

کورونا وائرس سے متعلق ملنے والی ہر اس معلومات کو آگے بڑھانے سے گریز کریں جو مستند نہ ہو اور جس میں کسی بھی ذرائع کی تصدیق نہ کی گئی یا پھر آپ کوشش کے باوجود اس کی تصدیق نہ کر پا رہے ہوں۔

غلط معلومات کو پھیلنے سے روکنے کا سب سے اہم طریقہ یہی ہے کہ اسے آگے نہ بڑھایا جائے اور ہم سب ہی اس میں اپنا کردار ادا کرکے ملک و قوم کو ذہنی اضطراب سے بچا سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں