امن مذاکرات کی پیشکش مسترد، طالبان کا افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار

اپ ڈیٹ 29 مارچ 2020
افغان طالبان نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم پر تمام فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے— فائل فوٹو: اے پی
افغان طالبان نے کہا کہ مذاکراتی ٹیم پر تمام فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے— فائل فوٹو: اے پی

طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے امن مذاکرات کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکراتی ٹیم پر تمام فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے۔

رپورٹس کے مطابق طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ افغان حکومت ایک خصوصی ٹیم تشکیل دینے میں ناکام رہی اور دیرپا امن کے لیے مذاکراتی ٹیم کے حوالے سے تمام فریقین کا متفق ہونا ضروری ہے۔

مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان حکومتی وفد میں 5 خواتین بھی شامل

ہفتے کو افغان حکومت نے 21 رکنی مذاکراتی ٹیم کا اعلان کیا تھا جس میں 45 خواتین بھی شامل تھیں تاکہ وہ ملک میں تنازع کے خاتمے کے لیے افغان مذاکرات میں شرکت کر سکیں۔

اس مذاکراتی ٹیم کی سربراہی صدر اشرف غنی کے پرانے ساتھی اور افغان سیکیورٹی کے سابق سربراہ معصول استنکزئی تھے۔

افغان حکومت نے طالبان کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی ٹیم افغانستان میں موجود تمام دھڑوں سے کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ممکن ہے کہ طالبان دوحہ معاہدے کی پاسداری نہ کریں، امریکی انٹیلی جنس

افغان طالبان ایک عرصے سے افغانستان کی حکومت کو امریکا کی کٹ پتلی قرار دیتے ہوئے مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں۔

تاہم گزشتہ ماہ 29 فروری کو طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں ایک شق یہ بھی تھی کہ طالبان، افغان حکومت سے مذاکرات کریں گے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ افغان حکومت، طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکراتی عمل کا حصہ تھی اور نہ ہی معاہدے کا لیکن وہ معاہدے کی شقوں پر عمل کرنے کی پابند ہے جس میں سے ایک طالبان قیدیوں کی رہائی بھی تھی۔

تاہم اس معاہدے کے باوجود طالبان نے افغان سیکیورٹی فورسز اور حکومتی املاک پر حملوں کا سلسلہ ترک نہیں کیا البتہ وہ غیرملکی افواج پر حملوں کا سلسلہ روک چکے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'امریکی فوجیوں کی واپسی کے بعد طالبان افغان حکومت میں جگہ بنا لیں گے'

9/11 کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں موجود القاعدہ اور طالبان کے دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے حملہ کیا تھا۔

لیکن 19سال سے جاری امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے باوجود ملک کے اکثر حصے پر اب بھی طالبان کنٹرول میں ہیں۔

2009 میں اقوام متحدہ نے افغانستان میں ہونے والی ہلاکتوں کو دستاویزی شکل دینا شروع کی تھی اور اب تک وہاں ایک لاکھ سے زائد افغانی ہلاک ہو چکے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں