سندھ میں تبلیغی جماعت کے اراکین کی موجودگی پر حکام پریشان

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2020
حیدر آباد کی مکی مسجد میں تبلیغی جماعت کے اراکین کی موجودگی پر پولیس نے انہیں مسجد میں ہی قرنطینہ کردیا - فائل فوٹو: عمیر علی
حیدر آباد کی مکی مسجد میں تبلیغی جماعت کے اراکین کی موجودگی پر پولیس نے انہیں مسجد میں ہی قرنطینہ کردیا - فائل فوٹو: عمیر علی

سندھ میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے ساتھ مقامی طور پر وائرس کی منتقلی کے بڑھتے ہوئے کیسز سامنے آنے کے بعد حکام کی تشویش بڑھ گئی ہے۔

اسی تشویش کی وجہ سے مقامی تبلیغی جماعت کے اراکین سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں جس کی وجہ خصوصی طور پر گزشتہ ماہ رائیونڈ کے اجتماع میں شرکت کرنے والے چند افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص کی رپورٹس شامل ہیں۔

حیدر آباد کے علاقے قاسم آباد کے سہرش نگر کے رہائشیوں نے پولیس کو علاقے کی مقامی مکی مسجد میں تبلیغی جماعت کے اراکین کی موجودگی کی اطلاع دی جس کے بعد انہیں حکام نے مسجد کی حدود میں رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ یہ ان کے لیے قرنطینہ مرکز کے طور پر ہے۔

حیدرآباد میں 15 رکنی تبلیغی جماعت کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ ’ہمیں یکم اپریل کو پورے پاکستان میں عام ریلوے ٹریفک کی بحالی کے ساتھ روانہ ہونا تھا لیکن اب ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اس علاقے کو کب چھوڑیں گے‘۔

مزید پڑھیں: یورپ کا وہ ملک جو کورونا کے پھیلاؤ کے باوجود لاک ڈاؤن نہیں ہوا

یہ شخص سوات سے حیدرآباد کی نور مسجد میں قائم تبلیغی جماعت کے مقامی ہیڈکوارٹر پہنچا تھا اور کچھ دن سے مکی مسجد میں قیام پذیر تھا۔

نور مسجد کراچی کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا تبلیغی جماعت کا مرکز ہے جبکہ ایک اور بڑا مرکز سکھر میں واقع ہے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ سوات سے رائے ونڈ پہنچے تھے اور پھر جماعت کی تشکیل کے لیے حیدرآباد کی نور مسجد پہنچے تھے جہاں سے وہ اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کے لیے سہرش نگر گئے تھے اور وہ اس وقت وہاں کی مکی مسجد میں ہیں۔

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب رائیونڈ میں تبلیغی جماعت کی تشکیل کے لیے جمع ہونے والے متعدد افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی-

رائیونڈ میں ہونے والے اس اجتماع میں سیکڑوں افراد شامل تھے اور یہ 11 سے 15 مارچ تک لاہور کے قریب منعقد ہوا تھا۔

وزارت صحت کے مطابق رائیونڈ اجتماع میں وائرس کا شکار ہونے والے کے بعد پیر کو کراچی میں 2 افراد کی موت ہوئی۔

خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کا تیزی سے پھیلاؤ سامنے آنے کے باوجود رائیونڈ اجتماع منعقد ہوا تھا۔

پنجاب کے سرکاری عہدیداروں نے اس وقت کہا تھا کہ کورونا وائرس یا کووڈ 19 کے پھیلاؤ کے خطرے کے پیش نظر جماعت کو ملتوی کرنے کی ان کی تمام ’درخواستوں‘ کو منتظمین نے مسترد کردیا تھا۔

حیدر آباد میں قرنطینہ

حیدرآباد کی مکی مسجد میں تعینات 3 پولیس اہلکاروں کا کام اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی مسجد کے احاطے میں داخل نہ ہو اور نہ ہی اس سے باہر نکلے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا کے مقامی منتقلی کے کیسز میں اضافہ

ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ’جب سے ہم یہاں تعینات ہیں کوئی بھی علاقے سے مسجد نہیں آرہا ہے‘۔

علاقے کے ایک مقامی شخص فیاض چانڈیو کے مطابق ابتدائی طور پر تبلیغی جماعت کے 7 اراکین مقامی ہیڈ کوارٹر نور مسجد سے مکی مسجد پہنچے تھے اور اس کے بعد مزید 8 افراد ان میں شامل ہونے کے لیے مسجد پہنچے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعہ کے روز نور مسجد میں قیام پذیر تبلیغی جماعت کے ایک 19 سالہ چینی نژادے میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد مقامی افراد نے پولیس کو ان کی موجودگی کی اطلاع دی تھی۔

چینی شہری لیاقت، یونیورسٹی ہسپتال (ایل یو ایچ) سٹی برانچ میں قائم ایک آئی سولیشن وارڈ میں زیر علاج ہے۔

صحت حکام نے 19 مشتبہ کیسز کو بھی رپورٹ کیا جو ممکنہ طور پر کورونا وائرس سے متعلق مریض سے رابطے میں تھے جنہیں کوہسار لطیف آباد قرنطینہ سینٹر میں منتقل کردیا گیا ہے اور ان میں سے 8 کے نمونے لیبارٹری میں بھیج کر نور مسجد کو سیل کردیا گیا۔

کوہسار ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر سریش کے مطابق اتوار کی صبح تک آٹھ میں سے ایک میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی۔

حیدرآباد کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) عدیل چانڈیو نے کہا کہ ’ہمیں چینی شہری کے ٹیسٹ کی تصدیق کے بعد پولیس کو وہاں تعینات کرنا پڑا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ 210 کے قریب لوگ تبلیغ کے مقاصد کے لیے اپنے معمول کے مطابق نور مسجد میں قیام پذیر ہیں‘۔

نور مسجد کے مقامی منتظم حاجی اسلم نے کہا کہ ’وہ تمام جماعتیں جو سندھ میں موجود تھیں، اس صورتحال کے سامنے آنے سے پہلے ہی مرکز چھوڑ چکی تھیں‘۔

انہوں نے وضاحت دی کہ ’ہم نے پہلے ہی نور مسجد کے اندر اپنی سرگرمیوں کو حکومت کی پابندی کی وجہ سے روک دیا تھا اور عمومی طور پر جس طرح با جماعت نماز ادا کی جاتی تھی، حکومت کی پابندیوں کی وجہ سے اسے چھوٹے گروہوں میں تبدیل کردیا تھا جنہیں فاصلہ رکھنے کی تجویز بھی دی گئی تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم گزشتہ دو جمعرات سے اپنی ہفتہ وار جماعت (شبِ جمعہ) کا انعقاد بھی نہیں کرسکے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’متعدد غیر ملکی اس وقت نور مسجد میں مقیم 200 کے قریب افراد میں شامل ہیں اور ان سب کی اسکریننگ کی جارہی ہے‘۔

حیدرآباد میں 830 تبلیغی جماعت کے اراکین کی موجودگی

تبلیغی جماعت سے وابستہ کل 830 افراد حیدرآباد میں موجود ہیں۔

حیدر آباد کے ڈی آئی جی نعیم شیخ کا کہنا تھا کہ ’ان 830 میں سے 234 کا تعلق حیدرآباد کی نور مسجد سے ہے اور اگر ٹیسٹ کیے گئے 8 افراد میں سے کسی میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تو مزید ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پڑے گی‘۔

مزید پڑھیں: زلفی بخاری کا خواجہ آصف کو ایک ارب ہرجانے کا نوٹس

صوبے کے دیگر حصوں میں بھی ایسی ہی تشویش پائی جاتی ہے۔

میرپورخاص، عمرکوٹ اور مٹھی کے اضلاع میں پولیس حکام تبلیغٰی جماعت کے اراکین کے بارے میں معلومات اکٹھا کررہے ہیں۔

ڈی آئی جی میرپور خاص ذوالفقار لاریک کے مطابق ضلع کے 24 مقامات پر تقریبا 260 اراکین موجود ہیں جن کا طبی معائنہ کیا جارہا ہے اور اب تک ان میں کوئی علامات سامنے نہیں آئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیگر کی اسکریننگ کا عمل جاری ہے اور مٹھی میں ایسے افراد کی تعداد کی گنتی بھی جاری ہے۔

عمرکوٹ میں تبلیغی جماعت کے 93 ارکان 14 مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

لاڑکانہ کے ضلعی پولیس چیف مسعود بنگش کا کہنا تھا کہ انہوں نے تبلیغی جماعت کے 200 ارکان کو سکھر بھجوادیا۔

تاہم لاڑکانہ پولیس افسر کے مطابق یہ تعداد 300 کے قریب ہے اور انہیں ہفتے کے روز سکھر منتقل کردیا گیا تھا۔

صورتحال کی سنگینی کو نہ سمجھنا

انتظامیہ کے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’لوگوں نے اب تک صورتحال کی سنگینی کو نہیں سمجھا اور واپس نہیں آئے، ان میں سے بیشتر دوسرے صوبوں سے ہیں اور بین الصوبائی آمدورفت اور ریل ٹریفک پہلے ہی معطل ہے‘۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ان میں سے کچھ وائرس کے کیریئر ہیں تو دوسروں کو بھی یہ لگ سکتا ہے جس سے یہ مزید پھیلے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس ٹیسٹ کے لیے مطلوبہ کٹس اور قرنطینہ کی اتنی گنجائش نہیں ہے، ہم پہلے ہی ان لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں جو سکھر کی قرنطینہ سینٹر میں تفتان سے پہنچے تھے لہذا یہ لوگ ہم سب کے لیے ایک اور بوجھ اور خطرے کا عنصر بن گئے ہیں‘۔

دریں اثنا نور مسجد کے منتظم کا کہنا تھا کہ وہ اراکین کے نقل و حمل کا انتظام کرنے کے لیے مختلف اضلاع میں مقامی انتظامیہ سے بات کرچکے ہیں اور یہ اخراجات خود اراکین برداشت کریں گے۔

پولیس تبلیغی مقصد کے لیے ملک کے دیگر حصوں سے سندھ آنے والے تبلیغی جماعت کے اراکین کو روک رہی ہے۔

انہیں معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کے مطابق مختلف مساجد میں رکھا جارہا ہے۔

ڈی آئی جی سکھر فدا مستوئی کا کہنا تھا کہ ’ہم ان کو اپنے علاقے میں آنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ مقامی آبادی کے ساتھ گھل مل نہیں سکتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم جو کام کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ان میں موجود مقامی شخص سے کہا جاتا ہے کہ وہ انہیں سماجی دوری کے ایس او پیز کے مطابق مختلف مساجد میں رکھیں اور پھر وہ اسکریننگ کے لیے جائیں اور اگر کسی کو ٹیسٹ کی ضرورت ہے یا کوئی ٹیسٹ مثبت نکلا ہے تو مریض کو آئی سولیشن میں رکھا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں