کورونا وائرس کا مشرق وسطیٰ کے تنازعات پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

اپ ڈیٹ 05 اپريل 2020
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی شدت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی— اے ایف پی
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے باوجود مشرق وسطیٰ میں تنازعات کی شدت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی— اے ایف پی

دنیا بھر میں پھیلنے والے کورونا وائرس کے سبب عالمی معیشت کا پہیہ جام ہو گیا ہے اور دنیا کی آدھی سے زائد آبادی گھروں میں قید ہو کر رہ گئی ہے۔

اس وائرس کے سبب پیدا ہونے والے بحران کی وجہ حکومتوں کے گرنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے جبکہ سفارتی تعلقات میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس: اس سال حج ہوگا یا نہیں؟ لاکھوں مسلمان پریشان

اقوام متحدہ نے اس کڑے وقت میں دنیا بھر میں جاری تنازعات میں سیز فائر کا مطالبہ کیا ہے اور سربراہ انتونیو گوتریز نے خبردار کیا کہ اس وائرس کا اصل بدترین بحران آنا ابھی باقی ہے۔

وائرس مشرق وسطیٰ کے ممالک میں ایران کے سوا کہیں بھی زیادہ تیزی سے نہیں پھیلا لیکن یہ بات غیرواضح ہے کہ اس وائرس کے مشرق وسطیٰ میں جاری مختلف جنگوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

یہاں شام، عراق، لیبیا اور یمن میں جاری تنازعات کا ایک جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

شام

کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد شام میں 9ساٍل سے جاری جنگ میں دو اہم فریقین روس اور اور ترکی کے درمیان سیز فائر پر اتفاق ہو گیا ہے۔

معاہدے کے بعد سیز فائر زون میں رہنے والے ادلیب کے افراد میں وائرس سے نمٹنے کیلئے امید کی نئی کرن پیدا ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی وبا: جو غلطی 100 سال قبل ایشیا نے کی، اب مغربی ممالک کر رہے ہیں

جنگ سے تباہ شدہ ملک میں وائرس کے جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے کے خطرے کے سبب سیز فائر کا معاہدہ عمل میں آیا۔

شام کی انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والی تنظیم کے مطابق 2011 میں شروع ہونے والے اس تصادم میں مارچ میں سب سے کم 103ہلاکتیں ہوئیں۔

شام میں متعدد منتظمین مثلاً دمشق کی حکومت، خود مختار کرد انتظامیہ اور ادلیب کو چلانے والے اتحاد کی کورونا وائرس سے نمٹنے کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ یہ وائرس وہاں پھیلتا ہے یا نہیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق تجزیہ کار فیبریس بلانک نے کہا کہ یہ وبا دمشق کی حکومت کے لیے یہ ثابت کرنے کا موقع ہے کہ ریاست شام موثر ہے اور تمام علاقے ان کے انتظام میں واپس آنے چاہئیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں مزید 254 کیسز کی تصدیق، مجموعی تعداد 3118 سے متجاوز، اموات 45 تک پہنچ گئیں

البتہ اس وبا اور اس کی وجہ سے درکار متحرک نظام کے سبب عین ممکن ہے کہ شام اور پڑوسی ملک عراق سے امریکی افواج فوری طور پر واپس لوٹ جائے۔

اس کے نتیجے میں شام میں ایک خلاف پیدا ہو جائے گا اور ایک سال قبل اپنے خلیفہ کی ہلاکت کے بعد سے مستقل جدوجہد کرنے والی داعش کے نئے اور جارحانہ حملوں کا آغاز ہو سکتا ہے۔

یمن

اقوام متحدہ کی اپیل پر حکومتی اتحادی سعودی عرب کی طرح یمن کی حکومت اور حوثی باغیوں نے مثبت جواب دیا تھا۔

البتہ پانچ سال سے جاری اس تنازع میں نظر آنے والی امید کی کرن اس وقت دم توڑ گئی جب گزشتہ ہفتے ریاض اور ایک سرحدی شہر پر ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے میزائل فائر کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 12 لاکھ سے تجاوز کرگئی

اس کے جواب میں پیر کو سعودی اتحاد نے یمن میں حوثیوں کے گڑھ صنعا میں میزائل فائر کیے تھے جس کے بعد سے بات چیت مسلسل ناکام یو رہی ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ کے نمائندے مارٹن گریفتھ یمن میں جاری اس تنازع میں سیز فائر کے لیے دونوں فریقین سے مستقل مشاورت کر رہے ہیں۔

اگر یمن میں سیز فائر نہیں ہوتا تو اس وبا کے دوران ایک نیا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے جہاں اسے پہلی ہی دنیا کا بدترین بحران قرار دیا جا چکا ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے، لوگوں کو پانی بھی بمشکل میسر آتا ہے اور جہاں 2کروڑ 40لاکھ عوام کو انسانی مدد کی شدید ضرورت ہے، اگر وہاں کورونا وائرس کا مرض پھیلتا ہے تو پوری آبادی کے صفحہ ہستی کے مٹنے کا اندیشہ ہے کیونکہ سیز فائر نہ ہوا تو وہاں طبی امداد بھی نہیں پہنچ سکے گی۔

مزید پڑھیں: ’کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے ترکی تیار تھا!‘

حدیدہ شہر کے ٹیکسی محمد عمر نے کہاکہ اگر کورونا وائرس پھیلا تو لوگ گلیوں میں مر رہے ہوں گے اور لاشیں سڑکوں پر سڑ رہی ہوں گی۔

لیبیا

یمن کی طرح لیبیا میں بھی مرکزی فریقین نے سیز فائر کے مطالبات ماننے کی حامی بھر لی تھی لیکن پھر یہ امید بھی دم توڑ گئی۔

حالیہ دنوں میں دارالحکومت تریپولی کے جنوبی علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ بھی اس مسلح تصادم کو روکنے کیلئے ناکافی ہے۔

ترکی نے حال ہی میں اس تنازع میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ حکومت کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

فیبریس بلانک نے پیش گوئی کی کہ مغربی ممالک کی مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں عدم دلچسپی کی وجہ سے حکومت صرف ترکی کی معاونت تک محدود ہو سکتی ہے۔

اس کے نتیجے میں ایک سال قبل حکومت کے خلاف خلیفہ ہفتر کی حمایت یافتہ افواج کے خلاف محاذ شروع کرنے والے فورسز کو فائدہ ہے جسے متحدہ عرب امارات، روس اور مصر کی بھی حمایت حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے زیادہ اموات انڈونیشیا میں ریکارڈ

مغربی ممالک کورونا وائرس کی وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جسے فوجی وسائل کے ساتھ ساتھ امن کے قیام کی صلاحیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق لیبیا میں سیز فائر کے لیے کوششوں کے زیادہ حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوئے کیونکہ مگربی ممالکت کی توجہ اس وقت کورونا وائرس پر مرکوز ہے۔

عراق

عراق میں اب جنگ کی شدت ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے لیکن کچھ علاقوں میں اب بھی وہاں کے عوام داعش کے رحم و کرم پر ہیں اور اب اس جنگ میں فریق بننے والے امریکا اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: پاکستان کی شرح نمو میں مزید 2 فیصد کمی کی پیشگوئی

ایران اور امریکا کورونا وائرس سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مالک کی فہرست میں شامل ہیں لیکن اب بھی اثرورسوخ کی جنگ میں دونوں ہی حریف پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

عراق سے امریکا کی اکثر افواج جا چکی ہیں اور اب محض چند ہی مقامات پر مٹھی بھر فوجی موجود ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں