چیف جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران حکومتی اقدامات پر سوالات اٹھاتے ہوئے فنڈز خرچ کرنے کے طریقہ کار کے حوالے سے کہا ہے کہ کسی عمل میں شفافیت نظر نہیں آرہی ہے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کورونا وائرس از خود نوٹس پر سماعت کی جہاں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل اور دیگر عہدیدار بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز کرتے ہوئے کورونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر کہا کہ صوبوں اور وفاق کے مابین کوئی طریقہ کار دکھائی نہیں دے رہا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بیت المال والوں نے عدالت میں جواب بھی جمع نہیں کرایا، عدالت کو کیا معلوم بیت المال کیا کررہا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ تمام حکومتیں ریلیف کی مد میں رقم خرچ کررہی ہیں لیکن کسی بھی عمل میں شفافیت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

مزید پڑھیں:حکومت کے کورونا سے متعلق اقدامات، چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے لیا

جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ 9 ارب سے زائد رقم وفاق نے صوبوں کو دی، صوبے آگے رقم کا کیا کررہے ہیں اس کی نگرانی ہونی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ نگرانی سے صوبائی خود مختاری پر کوئی حرف نہیں آتی، مانیٹرنگ بھی ایک طرز کا آڈٹ ہے، ڈیٹا ایک دوسرے شیئر ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زکوٰۃ کا پیسہ لوگوں کے ٹی اے ڈی اے اور باہر دورے کروانے کے لیے نہیں ہے، یہی حال بیت المال اور زکوٰۃ کے محکمے کے ساتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیت المال کا بھی بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے اور وہ کسی کو فنڈ نہیں دیتے، مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں ہے۔

اپنے ریمارکس میں چیف جسٹسں نے کہا کہ سندھ حکومت ہو یا کسی اور صوبے کی حکومت مسئلہ شفافیت کا ہے، صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لیکن تفصیل نہیں دی گئی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوٰۃ جمع کی، مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے اس کا کچھ نہیں بتایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰۃ کے پیسے دفتری امور پر نہیں خرچ کیے جا سکتے، لوگ منتیں مانتے ہیں تو وہاں چیزیں رکھ دیتے ہیں اور صدقے کے پیسے بهی وہاں جمع کرواتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صدقے کے پیسے افسروں کی تنخواہوں پر کیسے لگائے جا سکتے ہیں، جس مقصد کے لیے یہ پیسے آتے ہیں یہ وہیں خرچ ہونے چاہیئیں.

چیف جسٹس نے کہا کہ مزارات کے پیسوں سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں، ڈی جی بیت المال بھی زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ افسران کی تنخواہیں حکومت کو دینی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ زکوٰۃ کا پیسہ بیرون ملک دوروں کے لیے نہیں ہوتا، زکوٰۃ فنڈ کا سارا پیسہ ایسے ہی خرچ کرنا ہے تو کیا فائدہ، عوام کو ضرورت پیدا ہو تو ایسے مسائل سامنے آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:حکومت کو وبائی صورتحال میں کامیابی کیلئے محنت کرنی ہوگی، چیف جسٹس

چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مزارات کی حالت دیکھ لیں سب گرنے والے ہیں، سمجھ نہیں آتا اوقاف اور بیت المال کا پیسہ کہاں خرچ ہوتا ہے، سہیون شریف بازار کی بھی مرمت ہوتی تو چھت نہ گرتی، مزارات کا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کے لیے ہوتا ہے۔

صوبوں کے بنائے قوانین کا جائزہ لینا ضروری ہے، چیف جسٹس

دوران سماعت چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ جو قوانین صوبوں نے بنائے ہیں ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے، قرنطینہ مراکز میں مقیم افراد سے پیسے لیے جارہے ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قرنطینہ کے لیے ہوٹلوں کا انتخاب کن بنیادوں پر کیا گیا، تمام ہوٹلوں کو قرنطینہ بنانے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا، جو پیسے نہیں دے سکتے انہیں مفت قرنطینہ میں منتقل کیا جانا چاہیے، حاجی کیمپ قرنطینہ مراکز میں حالات غیر انسانی ہیں۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت تنویر قریشی سے استفسار کیا کہ اسلام آباد میں کتنے قرنطینہ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اسلام آبادکی وفاقی حدود میں 16 قرنطینہ مراکز قائم ہیں، ان میں ہوٹلوں، حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل بلڈنگ اور پاک چائنا سینٹر شامل ہیں، بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو 24 گھنٹے ان قرنطینہ مراکز میں رکھا جاتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان قرنطینہ مراکز میں ان کا خرچ کون برداشت کرتا ہے، سیکریٹری صحت نے کہا کہ حکومت اس کا خرچ برداشت کرتی ہے۔

اسکریننگ پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ پیناڈول وغیرہ کھا کر اسکریننگ سے بچ نکلتے ہیں، مردان میں ایک شخص نے دو پیناڈول کھائی اور وہ اسکرین سے بچ نکلا جس پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ اسی لیے اب 24 گھنٹے قرنطینہ میں رکھ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز میں لوگ کیوں شورمچا رہے ہیں، کیا آپ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز دیکھ کر آئے ہیں تاہم سیکریٹری صحت نے کہا کہ میں نہیں گیا لیکن ایڈیشنل سیکریٹری خود ہوکرآئے ہیں۔

مزیدپڑھیں:سپریم کورٹ کا ڈاکٹرز کو فوری حفاظتی کٹس کی فراہمی کا حکم

چیف جسٹس نے سیکریٹری صحت سے کہا کہ آج آپ حاجی کیمپ، او جی ڈی سی ایل اورپاک چائنا سینٹر خود جاکر دیکھیں اور سیکریٹری صحت نے کہا کہ دورہ کرکے سہولیات کی فراہمی یقینی بناؤں گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قرنطینہ مراکز میں کھانا اور تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں، تفتان کے قرنطینہ میں رہنا بھی ڈراؤنا خواب تھا، حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آرہا کہ ہو کیا رہا ہے۔

کیا پلازما انفیوژن سے کورونا کا علاج واقعی ممکن ہے، عدالت

جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا پلازما انفیوژن سے کورونا کا علاج واقعی ممکن ہے، جس پر سیکریٹری صحت تنویر قریشی نے کہا کہ یہ اب ٹیسٹنگ کے مراحل میں ہے، ابھی تک پلازما انفیوژن کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے اس موقع پر عدالت کو بتایا کہ چک شہزاد میں 32 کنال پر قرنطینہ مرکز بنا رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ قرنطینہ مراکز میں گرمیوں میں کیا سہولیات ہوں گئی۔

ایڈیشنل کمشنر اسلام آباد نے چیف جسٹس کو بتایا کہ ایئرکنڈیشنڈ کی ضرورت ہوئی تو فراہم کریں گیے اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے پوچھا آپ کون صاحب ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر اسلام اباد ہوں۔

چیف جسٹس نے وسیم خان کو روسٹرم سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ آپ جاکر سیٹ پر بیٹھیں اور کہا کہ کیا آپ کو اے سی لگانے کا خرچ معلوم ہے۔

جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ فائبر کا قرنطینہ بہت جلد گرم ہو جائے گا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ ورلڈ بینک کے پیسوں سے یونیسف سے خریداری کا کیا معمہ ہے؟ یہ تو پیسہ ایک ہاتھ سے لے کر دوسرے ہاتھ سے دینے کی بات ہے۔

عوام اور بیرون ملک سے آیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہورہا ہے، عدالت

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کسی صوبے اور محکمے نے شفافیت پر مبنی اپنی رپورٹ نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں:جیلوں میں قرنطینہ مراکز قائم کرنے، نئے قیدیوں کی اسکریننگ کرنے کا حکم

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عوام اور بیرون ملک سے لیا گیا پیسہ نہ جانے کیسے خرچ ہو رہا ہے، کھربوں روپے خرچ ہو چکے اور مریض صرف 5 ہزار ہیں۔

جسٹس قاضی امین کا کہنا تھا کہ قرنطینہ مراکز بنانے کے بجائے اسکول اور کالجوں کا استعمال کیوں نہیں کیا جاتا، نئے قرنطینہ مراکز بنانے پر پیسہ کیوں لگایا جارہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسکولوں کی تجویز اچھی ہے اس پر غور کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت ایزی پیسہ کے ذریعے امدادی رقم تقسیم کر رہی ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خرچ کی گئی رقم کی تفصیلات پیش نہیں کی گئیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا زکوٰة فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے، کیا زکوٰة کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے؟ کیا محکمہ زکوٰة کا بنایا گیا قانون شریعت سے متصادم نہیں۔

انہوں نے کہا کہ زکوٰة فنڈ کس کو مل رہا ہے یہ ایک معمہ ہے۔

سندھ میں 8 ارب کے اعدادو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا، چیف جسٹس

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے ایڈووکیٹ جنرل سندھ پیش ہوئے اور کہا کہ سندھ میں 56 کروڑ 90 لاکھ روپے 94 ہزار سے زائد افراد کو دیے گئے اور تمام رقم زکوٰة فنڈز سے مستحقین کو دی گئی۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ یہ 56 کروڑ 90 لاکھ روپے کن افراد کو ادا کیے گئے تو ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ زکوٰة انہی افراد کو دی گئی جنہیں ہرسال دی جاتی ہے، سندھ میں فی کس 6 ہزار روپے زکوٰة دی گئی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ لازمی نہیں کہ کورونا کا ہر مریض بیمار بھی ہو، سیل کی گئیں کراچی کی 11 یونین کونسلوں کی کل آبادی 6 لاکھ 74 ہزار سے زائد ہے۔

انہوں نے کہا کہ 12 اپریل تک 234 کورونا کیسز ان 11 یونین کونسل سے سامنے آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک سینٹر میں 1200 مریض رکھنے کی گنجائش ہے جبکہ 168 افراد کو گھروں میں ہی قرنطینہ کیا گیا ہے، 45 مریض ہسپتال میں ہیں جن کی حالت تشویش ناک ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ عدالت کو فراہم کی گئیں تمام معلومات درست ہیں جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو علم نہیں ہوا کہ سندھ حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے جواب دیا کہ صبح 4 سے 7 بجے تک گھر گھر راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں، سندھ سے متعلق باتیں بلاوجہ تو نہیں بنتی کوئی تو وجہ ہے۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس: ’تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہورہا‘

ایڈووکیٹ سلمان طالب الدین نے کہا کہ 30 مارچ سے راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو آج تک جاری ہے، کورونا پر سیاست نہیں کرنا چاہتے اس لیے تصویریں بھی نہیں بنا رہے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ میڈیا پر سنا ہے کہ ایکسپائر اٹا اور چینی دی گئی جبکہ جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں راشن کی تقسیم کے لیے 22 ہزار گھروں کا تعین کیسے کیا گیا کیا ان گھروں کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ایڈووکیٹ سلمان نے کہا کہ یونین کونسلوں کی کمیٹیاں مستحقین کا چناؤ کرتی ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ چھوٹا نہیں بلکہ ایک یورپی ملک کے برابر ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ جس گھر کو راشن دیا گیا انہیں تو معلوم ہے، ایک بیگ میں دس دن کا راشن ہوتا ہے۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ مانتے ہیں سندھ حکومت کو اس بار تشہیر کی ضرورت نہیں ہے لیکن تقسیم کا کام تو ایک دن میں نہیں ہوا ہو گا، جے ڈی سی والے راشن تقسیم کرتے ہوئے بتا رہے ہیں کہ کتنا راشن تقسیم ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس کی تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے صوبے کے بارے میں باتیں کیوں بنتی ہیں جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ باتیں کرنے والے تو باتیں کرتے ہیں۔

جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس راشن وصول کرنے والوں کی فہرستیں موجود ہیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس فہرستیں موجود ہیں اور راشن فراہمی کا دوسرا مرحلہ جلد شروع ہو جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں مزید ڈیڑھ ارب خرچ ہوں گے اور بالآخر سندھ حکومت 8 ارب روپے تک پہنچ ہی جائے گی۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ 8 ارب کی معلومات غلط ہیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 8 ارب روپے کے اعداو شمار پر ہم نے یقین نہیں کیا۔

ایڈووکیٹ سلمان نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سندھ میں معاشی سرگرمیاں شروع ہونے جارہی ہیں جو صنعتیں کھلیں گی وہ مخصوص دنوں میں ہی کام کریں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ جن کی ملازمت شروع ہو گی انہیں راشن کی ضرورت نہیں رہے گی۔

کپڑے کی دکان کھولے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ کپڑے کی دوکان کھولے کے بغیر درزی کی دکان کھولنے کا کیا فائدہ ہوگا، درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سندھ میں بعض صنعتوں کو کام کی اجازت دینا اچھا فیصلہ ہے، فیکٹریز ایکٹ پر سندھ کی کوئی فیکٹری پورا نہیں اترتی، ملازمین کے تحفظ کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری میں آگ لگی تو لوگوں کو بھاگنے کا راستہ بھی نہ ملا جبکہ فیکٹری کی کھڑکیاں بھی سیل کر دی گئی تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹری ورکرز کے حوالے سے قانون پر عمل نہیں ہو رہا، فیکٹری مالکان اپنے عملے کو انسان نہیں سمجھتے جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ایس او پیز پرعمل نہ کرنے والی تین فیکٹریوں کوبند کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر ظفر مرزا نے سوشل میڈیا پر عدلیہ مخالف مہم کی مذمت کردی

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوا اسے بھول کر آگے بڑھ رہے ہیں، سندھ میں صرف مقامی تیار کردہ کٹ استعمال ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ این 95 ماسک 425، سرجیکل ماسک 27 روپے میں مل رہے ہیں جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے پوچھا کہ سندھ حکومت کے لیے خریداری کون کر رہا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل کمیٹی خریداری کرتی ہے، سول سوسائٹی کو ڈالنے کا مقصد بے جا الزامات سے بچنا تھا۔

کے پی اور بلوچستان کے ایڈووکیٹ جنرل سے سوالات

چیف جسٹس گلزار احمد نے خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ مردان کی یوسی منگا میں کیا صورت حال ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ یو سی منگا کوکھول دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ طورخم بارڈر سے آنے والوں کو کیسے اور کہاں رکھا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ طورخم بارڈر پر پھنسے پاکستانیوں کو واپس آنے دیا جائے گا اور اب تک ڈھائی ہزار افراد واپس آئے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ طورخم سے آنے والوں کو قرنطینہ کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ چمن اور تفتان بارڈر پر قرنطینہ مراکز قائم کر دیے گئے ہیں، قلعہ عبداللہ میں 800 افراد کے لیے ٹینٹ سٹی قائم کر دیا ہے۔

چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ بلوچستان حکومت کی رپورٹ میں بھی شفافیت کا مسئلہ ہے جس پر ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ صرف راشن دے رہے ہیں، کسی کو نقد امداد نہیں دی۔

ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے 21 ہزار، این جی اوز نے 26 ہزار خاندانوں کو راشن دیا۔

عدالت نے کہا کہ صوبائی حکومتیں طبی عملہ اور ڈاکٹروں کا مکمل خیال رکھیں، ممکن ہو تو طبی عملے کو اضافی مراعات دی جائیں۔

عدالت نے ڈاکٹروں، طبی عملے اور سینٹری ورکرز کو خراج تحسین پیش کیا اور کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کردی۔

2کروڑ ماسک اسمگلنگ کے الزامات بے بنیاد ہیں، وزارت صحت

وزارت صحت نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس میں رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی جس میں مؤقف اختیار کیا کہ ملک سے 2 کروڑ ماسک اسمگل کرنے کے الزامات بے بنیاد ہیں۔

مزید پڑھیں:کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کررہی ہے، اعلیٰ حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں، سپریم کورٹ

رپورٹ میں کہا گیا کہ صرف 35 لاکھ ماسک چینی کمپنیوں کو برآمد کیے گئے اور اس معاملے کی تحقیقات وفاقی تحقیقات ادارہ (ایف آئی اے) کررہا ہے۔

عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ملک میں فیس ماسک کی کمی نہیں اور پی پی ایز کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے پورے ملک میں 100 سے زائد چھاپے بھی مارے گئے۔

وزارت صحت نے بتایا کہ این آئی ایچ میں کورونا وائرس کے مریضوں اور ان کے رشتے داروں کے ٹیسٹس مفت کیے جا رہے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ڈریپ کی سفارش پر پروٹوٹائپ وینٹی لیٹرز مقامی سطح پر بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے اسی طرح 100 لائسنس ہولڈرز کو عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق 300 سینیٹائیزر بنانے کی اجازت دی گئی ہے۔

وزارت صحت نے عدالت کو بتایا کہ اپریل کے آخر تک 20 ہزار ٹیسٹ کرنے کے اہل ہو جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں