جیسے جیسے نیا نوول کورونا وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے، طبی ماہرین کی جانب سے اس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی نئی ممکنہ علامات کو شناخت کیا جارہا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق بخار اس انفیکشن کی سب سے عام علامت ہے جو سب سے پہلے سامنے آتی ہے اور لگ بھگ 88 فیصد کیسز میں اسے دیکھا گیا (چین میں 55 ہزار کیسز کے تجزیے کے بعد یہ شرح بتائی گئی)، اس کے علاوہ خشک کھانسی، تھکاوٹ، گاڑھے بلغم کے ساتھ کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات وغیرہ۔

اس کے بعد مارچ میں برطانوی سائنسدانوں نے سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کو بھی اس بیماری کی علامات قرار دیا گیا اور اس پر متعدد تحقیقی رپورٹس سامنے آچکی ہیں، جن میں اس خیال کی تائید کی گئی ہے کہ اچانک سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی کووڈ 19 کی علامت ہوسکتی ہے، خصوصاً یہ ان مریضوں میں عام ہوتی ہے جن میں دیگر عام علامات نظر نہیں آتیں۔

اس کے علاوہ حال ہی میں یہ رپورٹ بھی سامنے آئی کہ یہ وائرس آنکھوں میں زیادہ طویل عرصے تک زندہ رہ سکتا ہے اور آشوب چشم بھی اس کی ایک نشانی ہوسکتی ہے۔

اپریل کے شروع میں جریدے امریکن جرنل آف کیٹروانٹرالوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 کے کچھ مریضوں کو نظام ہاضمہ کے مسائل خصوصاً ہیضے کا سامنا پہلی علامت کے طور پر ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق ایسے مریض جن میں ہیضہ پہلی علامت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، ان میں بیماری کی شدت معتدل تھی، نظام تنفس کی علامات بعد میں طاہر ہوئیں بلکہ کچھ کیسز میں تو ایسی علامات نظر ہی نہیں آئیں۔

اور اب ڈاکٹروں نے ایک اور ممکنہ علامت کو شناخت کرلیا ہے اور وہ ہے جلد کی رنگت یا ساخت میں اچانک تبدیلی آنا یا نشان ابھرنا۔

امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیسین کے ماہرین نے اس علامت کی نشاندہی کی ہے جسے 'کووڈ ٹوئیز' کا نام دیا گیا ہے، جس میں مریض کے پیروں اور پیروں کی انگلیوں پر جامنی یا نیلے رنگ کے نشان یا زخم ابھر آتے ہیں۔

اس یونیورسٹی کے وبائی امراض کے شعبے کے ماہر ڈاکٹر ایبنگ لوتھنگ بیچ نے بتایا 'یہ زخم یا نشان چھونے پر تکلیف دہ اور ان میں جلن کا احساس بھی ہوتا ہے'۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی ممکنہ نشانی اس لیے بھی زیادہ دلچسپی کا مرکز بنی ہوئی ہے کیونکہ یہ کووڈ 19 کے ایسے مریضوں میں نظر آرہی ہے جن میں دیگر علامات سامنے نہیں آتیں، بالکل اسی طرح جیسے سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محرومی بھی اکثر ان افراد میں دیکھی گئی جن میں اس بیماری کی دیگر علامات کو نہیں دیکھا گیا۔

ڈاکٹر ایبنگ کا کہنا تھا 'یہ واضح ہے کہ ایسا مرض کے ابتدا میں ہوتا ہے، یعنی سب سے پہلے اس کا سامنا ہوتا ہے اور پھر بیماری آگے بڑھتی ہے، کئی بار تو یہ کووڈ 19 کا پہلا سراغ ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب دیگر علامات نمودار نہیں ہوتیں؟ کووڈ ٹوئیز کچھ افراد میں ایک ہفتے سے 10 دن میں غائب ہوجاتی ہیں، مگر پھر نظام تنفس کی علامات نظر آنے لگتی ہیں'۔

طبی ماہرین کے مطابق یہ نئی علامت بچوں اور نوجوانوں میں دیگر عمر کے افراد کے مقابلے میں زیادہ نظر آرہی ہے اور ڈاکٹر ایبنگ کا کہنا تھا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کا قوت مدافعت زیادہ بہتر ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس علامت کو مارچ میں اٹلی کے ٖڈاکٹروں نے دریافت کیا تھا اور جب ماہرین نے اس عجیب نشانی کے بارے میں آگاہ کیا تو امرکا میں زیادہ سے زیادہ کیسز میں اس کی شناخت ہونے لگی۔

ماہرین کے مطابق اس کی واضح وجہ تو معلوم نہیں مگر ممکنہ طور پر 2 وجوہات کووڈ ٹوئیز کا باعث بن سکتی ہے، ایک ممکنہ وضاحت یہ ہے کہ اس بیماری کے نتیجے میں ورم کے خلاف ردعمل کا اثر پیروں اور انگلیوں میں ہوتا ہے یا یہ خون کی شریانوں میں کلاٹنگ کا سبب ہے، تاہم فی الحال کوئی واضح جواب دینا ممکن نہیں۔

یہ علامت کچھ اس طرح کی ہوسکتی ہے، فوٹو بشکریہ این بی سی شکاگو
یہ علامت کچھ اس طرح کی ہوسکتی ہے، فوٹو بشکریہ این بی سی شکاگو

میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کے انتہائی نگہداشت کے شعبے کی سربراہ سوزن ویلکوس نے بھی کووڈ 19 کے بہت زیادہ افراد میں جامنی رنگ کے نشانات دیکھیں اور ان کے خیال میں یہ جسم میں شدید انفیکشن سے ہونے والے ورم سے خون کی ننھی رگوں میں چھوٹے لوتھڑے بننے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا یہ یہ ان مریضوں میں بہت عام ہے جن میں سانس لینے میں مشکلات کا باعث بننے والے مرض اے آر ڈی ایس سامنے آتا ہے اور بیشتر افراد بچ نہیں پاتے۔

انہوں نے بتایا 'جب انفیکشن ہوتا ہے تو آپ کا جسم ورم ریلیز کرتا ہے، متعدد مواقعوں پر یہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے مگر کئی بار یہ بہت زیادہ ہوجاتا ہے، جس سے خود جسم کو نقصان پہنچنے لگتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پہلے بھی وائرل نمونیا یا فلو کے سنگین کیسز میں دیکھ چکی ہیں تو ان کے لیے کووڈ 19 کے مریضوں میں ایسا نظر آنا حیران کن نہیں تھا۔

ڈاکٹر ایبنگ کے مطابق اس نشانی کے حوالے سے احتیاط اور شبہات سے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ درحقیقت کووڈ ٹوئیز کے مریضوں میں زیادہ امکان اس بات کو ہوتا ہے کہ ان میں وائرس کی تشخیص نہیں ہوسکے گی کیونکہ بیماری ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے، مگر مریض کو ایسا نظر آنے گھر میں قرنطینہ کرکے علامات پر گہری نظر رکھی چاہیے۔

خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے ابھی تک سونگھنے، چکھنے کی حسوں سے محرومی یا جلدی مسائل کو کووڈ کی علامات کی فہرست کا حصہ نہیں بنایا مگر مختلف ممالک میں اس حوالے سے ماہرین کی تحقیقات کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

امریکن اکیڈمی آف ڈرماٹولوجی نے اپنے اراکین اور دنیا بھر کے ڈاکٹروں کو کہا ہے کہ وہ کووڈ 19 سے متعلق کسی بھی قسم کے جلدی علامات کے بارے میں رپورٹ کریں تاکہ ڈاکٹر بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ یہ مرض جلد کو کیسے متاثر کرسکتا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

HonorBright Apr 24, 2020 12:09pm
it's really nerve straining to look for virus symptoms, just when u feel convinced that u have got this virus the researchers would throw in something new and then u begin looking for the newer symptoms...