گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دنیا بھر میں تپ دق (ٹی بی) کی روک تھام کے لیے مختلف ممالک میں عام استعمال ہونے والی ویکسین کو نئے نوول کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تحقیق کا آغاز ہوا۔

بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین نومولود اور کم عمر بچوں کو ٹی بی سے بچانے کے لیے دی جاتی ہے۔

اب امریکا میں سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ویکسین کورونا وائرس کے اثرات کی روک تھام کرسکتی ہے یعنی ہسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

بی سی جی ویکسین کو ویسے تو ٹی بی سے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر امریکا میں اسے مثانے کے کینسر کے علاج کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

کچھ عرصے پہلے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جن ممالک میں اس ویکسین کا اب بھی عام استعمال ہورہا ہے، وہاں کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور اموات کی شرح ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔

اب امریکا کی ٹیکساس اے اینڈ ایم پہلی یونیورسٹی بن رہی ہے جو انسانوں پر اس ویکسین کی آزمائش کرنے والی ہے اور طبی ورکرز کو اس کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

یونیورسٹی کے سائنس سینٹر کے پروفیسر جیفری ڈی کاریلو کے مطابق 'یہ ویکسین لوگوں کو بیماری سے بچانے میں مدد نہیں دے گی، درحقیقت اس ویکسین کو بڑے پیمانے پر مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے'۔

انہوں نے کہا 'اس سے اگلے 2 سے 3 برسوں کے دوران بڑا فرق نظر آئے گا جب تک کووڈ 19 کے لیے ایک مخصوص ویکسین تیار نہیں ہوجاتی'۔

محققین کو 25 لاکھ ڈالرز گزشتہ ہفتے فراہم کیے گئے تاکہ وہ اپنا کام ہرممکن تیزی سے آگے بڑھاسکیں اور تحقیق کی ویڈیو بھی جاری کی گئی اور انسانی ٹرائل رواں ہفتے شروع ہوجائے گا۔

ویڈیو میں پروفیسر کاریلو نے کہا کہ اس ویکسین ے لوگوں کو فوری طور پر کووڈ 19 کے علاج میں مدد مل سکے گی کیونکہ اس دوا کو ایف ڈی اے نے پہلے ہی منظوری دی ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ویکسین کی آزمائش کے ابتدائی 3 مراحل کی جگہ براہ راست چوتھے مرحلے سے تحقیق شروع کی جارہی ہے۔

اس تحقیق میں 1800 طبی ورکرز کو شامل کیا جائے گا اور اسے ریاست کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ لاس اینجلس اور بوسٹن تک توسیع دی جائے گی۔

اب تک آسٹریلیا، نیدرلینڈ، جرمنی اور برطانیہ میں بڑے پیمانے پر بی سی ویکسین کے کلینکل ٹرائلز شروع کرنے کا اعلان ہوچکا ہے، جن کے نتائج آئندہ چند ہفتوں یا مہینوں میں سامنے آئیں گے۔

مارچ کے آخر میں ایک تحقیق دعویٰ کیا گیا تھا کہ جن لوگوں کو یہ ویکسین دی گئی ہے انہیں کووڈ 19 کے خلاف کسی حد تک تحفظ ملا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 کے کیسز اور اموات کی شرح ان ممالک میں زیادہ ہے جہاں یہ ویکسین اب استعمال نہیں ہوتی، جیسے امریکا، اٹلی، اسپین اور فرانس۔

پاکستان، بھارت، چین اور کئی ممالک میں یہ ویکسین اب بھی عام استعمال ہوتی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج medRxiv میں شائع ہوئے اور محققین کا دعویٰ تھا کہ جن ممالک میں اس ویکسین کا استعمال ہورہا ہے وہاں کووڈ 19 سے اموات کی شرح نمایاں حد تک کم ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے ممالک جہاں اس ویکسین کا استعمال تاخیر سے ہوا جیسے ایران جہاں 1984 میں اسے اپنایا گیا، وہاں بھی اموات کی شرح زیادہ ہے، جس سے اس خیال کو توقیت ملتی ہے کہ بی سی جی ایسے بزرگ افراد کو تحفظ فراہم کررہی ہے، جن کو بچپن میں یہ ویکسین استعمال کرائی گئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ اس ویکسین کے استعمال کرنے والے ممالک میں کووڈ 19 کے مصدقہ کیسز کی تعداد بھی کم رہنے میں ممکنہ مدد ملی ہے۔

اس ویکسین میں ٹی بی کی ایک قسم کا زندہ اور کمزور جراثیم ہوتا ہے، جو جسم کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ بی سی جی ویکسین کا بڑے پیمانے پر استعمال کووڈ 19 پھیلانے والے افراد میں کمی لاسکے گا جبکہ دیگر اقدامات کے ذریعے اس کے پھیلائو میں کمی لانا ممکن ہوجائے گا۔

محققین کا کہنا تھا کہ چین میں اس وائرس کے تیزی سے پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں 1966 سے 1986 کے ثقافتی انقلاب کے دوران ٹی بی کی روک تھام اور علاج کرنے والے ادارے معطل اور کمزور ہوگئے تھے، جس کی وجہ سے لوگ متاثر ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں