دنیا بھر میں طبی ماہرین ڈیٹا کو اکٹھا کررہے ہیں جو ان کے خیال میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کی جلد پر نمودار ہونے والی ایسی علامات ہوسکتی ہیں جن کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

متعدد وائرل امراض بشمول لاکڑا کاکڑا اور خسرہ وغیرہ میں جلد ہر دانے نظر آتے ہیں جو جسم کا انفیکشن کے خلاف مدافعتی ردعمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔

اگرچہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر دنیا بھر میں ایسے کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے اور نئے نوول کورونا وائرس پر ہونے والی ابتدائی تحقیقی رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا وائرس بھی جلد پر اثرات مرتب کرتا ہے۔

جرنل آف دی یورپین اکیڈمی آف ڈراماٹولوجی اینڈ وینرولوجی میں شائع ایک خط میں اٹلی کے ایک ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ لمبارڈے کے خطے میں کووڈ 19 کے 88 مریضوں کے تجزیے میں معلوم ہوا کہ 20 فیصد میں جلدی مسائل سامنے آئے۔

ان میں سے بیشتر میں سرخ دانے یا ریشز ان کے دھڑ پر نمودار ہوئے جبکہ کچھ میں ایسے آبلے پڑگئے جو لاکڑا کاکڑا سے مماثلت رکھتے ہیں۔

اس کے بعد اپریل کے شروع میں فرانس کے 400 سے زائد جلدی امراض کے ماہرین کے ایک ادارے نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کووڈ 19 کے ممکنہ مریضوں میں جلدی علامات جیسے چھپاکی (hives)، سرخ دانے اور بہت ٹھنڈ یعنی فراسٹ بائیٹ جیسے نشانات ہاتھوں اور پیروں میں نظر آتے ہیں۔

پھر اپریل کے وسط میں جرنل آف امریکن اکیڈمی آف ڈرماٹولوجی میں شائع ایک خط میں اٹلی کے ڈاکٹروں نے کہا کہ لاکڑا کاکڑا جیسے دانے بھی کووڈ 19 کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔

امریکا میں ہاتھوں اور پیروں میں فراسٹ بائیٹ جیسے نشانات کو کووڈ ٹوئیز کا نام دیا اور طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے مریضوں میں جامنی رنگ کے نشان اور سوجن نظر آسکتے ہیں اور امرکن اکیڈمی آف ڈرماٹولوجی نے ان کو کووڈ 19 کی علامات کی رجسٹری میں شامل کرلیا۔

نیویارک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر ایلیسا فیمیا نے بتایا کہ انہوں نے ان تمام علامات کو کووڈ 19 کے مشتبہ یا مصدقہ مریضوں میں دیکھی ہے اور دریافت کیا ہے کہ ان کو ممکنہ علامات میں شامل کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے بتایا 'ایک وائرس جس نے اولین 5 ماہ میں انسانوں کے ساتھ یہ سب کچھ کیا، وہ مجھے چونکا دیتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے ہسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں میں اکثر گلابی رنگ کے خارش والے دانے دھڑ اور ہاتھوں و پیروں میں نمودار ہوتے ہیں جبکہ کچھ میں پھنسیاں بن جاتی ہیں جو لاکڑا کاکڑا جیسی ہوتی ہیں، مگر یہ علامت بہت کم نظر آتی ہے۔

ان کے بقول فی الحال یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ اس طرح کے جلدی مسائل واقعی سارس کوو 2 وائرس کا نتیجہ ہیں یا علاج کے لیے استعمال ہونے والی ادویات کا اثر، تاہم اکثر یہ اتنے نمایاں ہوتے ہیں کہ ممکنہ طور پر یہ وائرس کا نتیجہ بھی ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حالیہ دنوں میں کووڈ ٹوئیز کوو انہوں نے بہت زیادہ دیکھا ہے اور ایسے افراد میں بھی جن میں کووڈ 19 کی دیگر علامات بہت کم ہوتی ہیں، تاہم ابھی مکمل طور پر یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کووڈ 19 سے ہونے والا مسئلہ ہے۔

ایسے متعدد افراد کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ نہیں ہوتا کیونکہ وہ اتنے بیمار نہیں ہوتے کہ اننہیں زیادہ طبی امداد فراہم کی جائے، جس کی وجہ سے یہ تعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ وائرس سے منسلک ہے یا نہیں، کچھ افراد میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوتی مگر جلدی مسائل کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آتی۔

ان کے خیال میں کووڈ 19 کے ایسے مریض جن میں علامات نظر نہیں آتیں یا بہت معمولی ہوتی ہیں، ان میں کووڈ ٹوئیز کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، تاہم اس حوالے سے ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی تحقیق سے عندیہ ملتا ہےک ہ کووڈ 19 کے مریضوں کی جلد میں ریشز کی وجہ دوران خون کے مسائل کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے جو زیادہ فکرمندی کا باعث ہے۔

جلد میں خون کے چھوٹے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دیگر حصوں میں بھی بلڈکلاٹس بن رہے ہیں ، گردوں، جگر یا دیگر اعضا میں ایسا ہونا زیادہ سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔

نیویارک میں دیگر جلدی امراض کے ماہر کووڈ 19 اور جلدی عوارض جیسے چنبل اور دیگر کے درمیان تعلق کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔

ایشکن اسکول آف میڈیسین کی تحقیقی ٹم نے اس مقصد کے لیے مریضوں کی خدمات حاصل کی ہیں اور انہیں توقع ہے کہ وہ جلدی مسائل اور کووڈ 19 کے درمیان تعلق کے بارے میں جان سکیں گے۔

وہ ہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جلدی امراض کے علاج کے لیے تجویز کی جانے والی ادویات جسم میں ورم کم کرنے کے ساتھ نئے نوول کورونا وائرس کے خلاف مدافعتی نظام کو کس حد تک بہتر کرتی ہیں۔

اس تحقیق کے نتائج کچھ عرصے میں سامنے آئیں گے مگر ڈاکٹر ایلیسا فیمیا کا کہنا ہے کہ جن افراد میں غیرمعمولی جلدی مسائل نظر آتے ہیں، انہیں ڈاکتر کے مشورے سے ادوات کا استعمال کرنا چاہیے، جس سے یہ جاننے میں مدد مل سکے گی کہ ان علامات کا کووڈ 19 سے تعلق ہے یا نہیں اور انہیں خود کو آئسولیشن کرنا چاہیے یا نہیں۔

خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق بخار اس انفیکشن کی سب سے عام علامت ہے جو سب سے پہلے سامنے آتی ہے اور لگ بھگ 88 فیصد کیسز میں اسے دیکھا گیا (چین میں 55 ہزار کیسز کے تجزیے کے بعد یہ شرح بتائی گئی)، اس کے علاوہ خشک کھانسی، تھکاوٹ، گاڑھے بلغم کے ساتھ کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات وغیرہ۔

امریکا کے اہم ترین طبی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز پریونٹیشن اینڈ کنٹرول (سی ڈی سی) نے حال ہی میں 6 نئی علامات کو فہرست میں شامل کیا ہے۔

مگر اب یہ فہرست مجموعی طور پر درج ذیل 9 علامات پر مشتمل ہوگئی ہے:

بخار

کھانسی

سانس لینے میں مشکل

ٹھنڈ لگنا

ٹھنڈ لگنے سے مسلسل کپکپی

مسلز میں درد

سردرد

گلے کی سوجن

سونگھنے یا چکھنے کی حس سے اچانک محرومی

درحقیقت مارچ میں رائل کالج آف سرجنز آف انگلینڈ کی تحقیق میں کہا گیا کہ سونگھنے کی حس سے محرومی کو پہلے ہی وائرسز سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ ایسے 40 فیصد کیسز کسی وائرل انفیکشن کے بعد رپورٹ ہوتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق متعدد ممالک میں کووڈ 19 کے مریضوں کے ڈیٹا میں اضافے سے یہ ٹھوس اشارہ ملتا ہے کہ بیشر مریضوں کو اس مرض کی علامات کے دوران سونگھنے کی حس سے محرومی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

درحقیقت بیشتر اوقات تو یہ سب سے پہلے نمودار ہونے والی علامات ہوسکتی ہیں، جس کے بارے میں ابھی کہا جاتا ہے کہ بخار سب سے پہلے اور عام ترین علامت ہے۔

شواہد میں مزید بتایا گیا کہ سونگھنے کے ساتھ ساتھ چکھنے کی حس سے محرومی بھی ایسے افراد میں نظر آئی جن میں کووڈ 19 کی دیگر علامات نظر نہیں آئیں مگر وائرس کی تشخیص ہوئی۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی حالیہ تحقیق کے مطابق حال ہی میں اچانک سونگھنے یا چکھنے کی حس سے اچانک محرومی کا سامنا کرنے والے افراد میں کسی اور انفیکشن کے مقابلے میں نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا امکان 10 گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔

تاہم عالمی ادارہ صحت نے تاحال اپنی علامات کی فہرست کو اپ ڈیٹ نہیں کیا ہے یعنی سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی اور ٹھنڈ لگنے کو ڈبلیو ایچ او نے اپ ڈیٹ نہیں کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں