ماں کے دودھ میں موجود کورونا اینٹی باڈیز بچوں کو انفیکشن سے بچاسکتی ہیں، تحقیق

اپ ڈیٹ 11 مئ 2020
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے وائرس دودھ کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا—فائل فوٹو: اے ایف پی
تحقیقات سے ثابت ہوا ہے وائرس دودھ کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا—فائل فوٹو: اے ایف پی

ایک نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ ماؤں کے دودھ میں ایسی اینٹی باڈیز موجود ہوسکتی ہیں جو بچوں کو وائرس سے بچاسکیں۔

یہ تحقیق جس کا اب تک جائزہ نہیں لیا گیا اس مفروضے پر تحقیق کی گئی کہ ماں کے دودھ میں اینٹی باڈیز کا کچھ تناسب خون سے آتا ہے جس سے یہ امکان ملتا ہےکہ دودھ میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔

تحقیق کے لیے دودھ کے 15 نمونے لیے گئے تھے اور نوول کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی ڈونرز سے جبکہ 10 منفی سیمپلز بھی تحقیق کا حصہ تھے۔

مزید پڑھیں: کووڈ 19 کے مریضوں کیلئے تجرباتی بلڈ پلازما تھراپی میں مزید پیشرفت

نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کا شکار ہونے والی اکثر ماؤں کے دودھ میں سارس کووی-2 کے خلاف مضبوط مدافعتی ردعمل موجود ہے اور اس ردعمل کی جامع تحقیق قابل ضمانت ہے۔

نیویارک کے علاقے ماؤنٹ سنائی آکیہن اسکول آف میڈیسن میں تحقیق کرنے والی ڈاکٹر ربیکا پوویل نے کہا کہ دودھ پلانے والی مائیں جو کورونا وائرس کا شکار ہیں انہیں اپنی بیماری اور اس کے بعد بھی بچوں کو دودھ پلانا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ وائرس دودھ کے ذریعے منتقل نہیں ہوتا اور ہم نے تعین کیا ہے کہ اینٹی باڈیز یقینی طور پر وہاں موجود ہیں اور بچوں کو انفیکشن سے بچاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر ربیکا پوویل نے کہا کہ ہمیں اُمید ہے کہ ماں کے دودھ میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ ہے اور حفاظتی میں کردار ادا کرتی ہیں، یہ لازمی طور پر ماں کا دودھ پینے والے بچوں کے لیے اہم ہے۔

انہوں نے تحقیق سے قبل فوربز کو بتایا تھا کہ حفاظتی اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ ہے تو انہیں علیحدہ کرکے کورونا وائرس کے سنگین کیسز میں علاج کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

تاہم ڈاکٹر ربیکا پوویل نے انٹرنیٹ سے ماں کا دودھ خریدنے اور استعمال نہ کرنے کی تجویز دی کیونکہ اس میں دیگر بیماریاں ہوسکتی ہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ میں مخصوص اینٹی باڈیز کو دودھ سے الگ کرانے اور انہیں علاج کرنے سے متعلق بات کررہی ہوں۔

فوربز کی رپورٹ کے مطابق علاج کی یہ قسم خون میں پلازما کی اینٹی باڈیز پر کی جانے والی حالیہ تحقیقات جییسی ہے۔

خیال رہے کہ پلازما سے علاج کے لیے کورونا وائرس سے صحتیاب ہونے والے شخص سے خون حاصل کرنا ہوتا ہے اور پھر اس میں سے علیحدہ کیے گئے پلازما کو متاثرہ مریض میں منتقل کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس: ڈریپ نے پلازما تھراپی، وینٹیلیٹرز کے کلینکل ٹرائلز کی منظوری دے دی

پلازما دراصل خون کا ایک شفاف حصہ ہوتا ہے جو خونی خلیے کو علیحدہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔

پلازما میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں، اینٹی باڈیز کے حامل پلازما کی منتقلی سے بیمار شخص کو مرض لڑنے کے لیے 'غیر فعال مدافعت' فراہم ہوتی ہے تاہم غیر فعال مدافعتی عمل عام طور پر چند ہفتے یا مہنیوں تک ہی اثر انگیز ہوتا ہے۔

پلازما تھراپی اور غیر فعال مدافعتی عمل کے پیچھے چھپی سائنس بنیادی طور پر کوئی نئی یا منفرد نہیں ہے کیونکہ جرمن ماہر ایمولوجسٹ ایمل وون بہرنگ کا متعارف کردہ یہ تصور 1890ء سے وجود رکھتا ہے اور اس طریقہ علاج کو وسیع پیمانے پر کن پیڑے، خسرے اور پولیو وغیرہ جیسے وبائی امراض کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں