دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق کئی ایسی رپورٹس سامنے آئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ اس وائرس سے متعلق ماضی میں کئی پیش گوئیاں کی گئیں۔

اور اب مقبول بھارتی ڈرامے ’سی آئی ڈی‘ کے حوالے سے بھی ایسی رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ اس ڈرامے میں کورونا وائرس جیسی وبا کی پیش گوئی کی گئی تھی۔

بھارتی نشریاتی ادارے ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ٹی وی سیریز سی آئی ڈی کی ایک قسط میں بھی کورونا وائرس جیسی وبا دکھائی گئی اور اس قسط کا نام ’دی کیس آف ڈیڈلی وائرس‘ رکھا گیا تھا جو 2013 میں نشر ہوئی۔

سی آئی ڈی کے مرکزی اداکار شیواجی ستم جنہوں نے اس سیریز میں اے سی پی پردیومن کا کردار نبھانا تھا نے اس قسط کے حوالے سے بتایا کہ ’میرے لیے سی آئی ڈی کی تمام اقساط میں سب سے یادگار دی کیس آف ڈیڈلی وائرس تھی، یہ آج کی صورتحال سے بہت زیادہ مماثلت رکھتی ہے، ہمیں اس وائرس سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے ماسک اور حفاظتی سوٹس کی ضرورت پڑی تھی‘۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس قسط میں ایک دوا ساز کمپنی کے ملازم کو نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے جس کے بعد وہ بدلہ لینے کے لیے اس لیب میں تیار کردہ اس وائرس کو شہر میں پھیلا دیتا ہے، جس کے بعد میں اور میری ٹیم لوگوں کی مدد کرتے ہیں‘۔

قسط میں ایک ڈاکٹر اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے بھی نظر آیا کہ یہ وائرس کافی خطرناک ہے جو چھینکنے، کھانسنے اور ہاتھ ملانے سے پھیل سکتا ہے۔

خیال رہے کہ 12 سال قبل شائع ہونے والی ایک کتاب بھی حال ہی میں دوبارہ سامنے آئی تھی جس میں حیران کن طور پر پیش گوئی کی گئی تھی کہ 2020 میں اچانک دنیا میں ایک وبا پھوٹ پڑے گی۔

مذکورہ کتاب کے حوالے سے سب سے پہلے امریکی ٹی وی ریئلٹی اسٹار کم کارڈیشین نے ٹوئٹ کی جس کے فوری بعد اس کتاب پر سوشل میڈیا پر نئی بحث چھڑ گئی اور ’فیکٹ چیک‘ کرنے والی ویب سائٹس مذکورہ کتاب کا جائزہ لینے میں مصروف ہوگئیں۔

اس سے قبل 2011 کی ایک فلم 'کونٹیجن' بھی توجہ کا مرکز بنی جس میں کورونا وائرس جیسی ہی ایک بیماری کا ذکر کیا گیا ہے۔

ڈائریکٹر اسٹیون سودربرگ کی اس فلم کا آغاز ایک خاتون سے ہوتا ہے جو ہانگ کانگ سے واپس مینیسوٹا ایک عجیب بیماری کے ساتھ واپس لوٹتی ہے اور چند دنوں میں اس کی موت ہوجاتی ہے، جس کے بعد اس کے شوہر اور دیگر میں بھی وہی علامات ظاہر ہوتی ہیں بلکہ دنیا بھر میں وبا پھیل جاتی ہے۔

اس فلم میں بدترین منظرنامے کی دہلا دینے والی جھلک دکھائی گئی ہے کہ کس طرح افواہیں اور تشویش پھیلتی ہے اور معاشرتی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، قرنطینہ کے ساتھ ساتھ لوٹ مار اور خالی ائیرپورٹس کے مناظر ریڑھ کی ہڈی میں سردلہر دوڑا دیتے ہیں۔

بعدازاں ڈزنی کی مشہور زمانہ فلم ’ٹینگلڈ‘ کو بھی کورونا وائرس سے جوڑا گیا۔

2010 میں سامنے آئی ڈزنی کی فلم ’ٹینگلڈ‘ ریپنزل کی کہانی پر مبنی تھی جس میں ایک شہزادی کو اس کے جادوئی لمبے بالوں کی وجہ سے ایک عورت اونچی عمارت میں قید کرلیتی ہے اور اسے پوری زندگی یہ کہہ کر ڈراتی رہتی ہے کہ نیچے شہر میں موجود لوگ اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔

وہ عورت جو ریپنزل کو اغوا کرکے اس ٹاور میں لائی تھی وہ اسے اس کے کنگڈم سے دور رکھنا چاہتی تھی تاکہ کوئی اس تک نہ پہنچ سکے اور جانتے ہیں اس کنگڈم کا نام کیا تھا جس سے ریپنزل کو دور رکھا گیا؟

اس کنگڈم کا نام تھا ’کورونا‘، جی ہاں ریپنزل کو اغوا کرنے والی عورت اسے کورونا نامی کنگڈم سے دور رکھنا چاہتی تھی۔

چند ماہ قبل مشہور زمانہ پاپ گلوکار مائیکل جیکسن کے سابق باڈی گارڈ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ گلوکار اپنی پوری زندگی ماسک پہن کر اس لیے گھوما کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایک ایسا وائرس اس دنیا میں ضرور آئے گا جو انسانوں کو بیمار کرسکتا ہے۔

اس کے علاوہ نیٹ فلکس کی ایک کورین سیریز کا نام ’مائے سیکرٹس ٹیریئس‘ ہے جس کی 10وی قسط میں ایک ایسی جان لیوا بیماری کا ذکر کیا گیا جسے کورونا وائرس سے ملایا گیا تھا اور انسانوں کے درمیان بائیو کیمیکل جنگ شروع کرنے کے لیے اسے پھیلایا گیا۔

اس سیریز کے چند مناظر سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئے، ان میں ایک ڈاکٹر یہ کہتی نظر آئیں کہ ’کورونا وائرس نظام تنفس پر حملہ کرتا ہے اور زیادہ سنجیدہ بات یہ ہے کہ اس کی انکیوبیشن کی مدت 2 سے 14 دن تک ہے‘۔

ڈاکٹر نے مزید کہا کہ ’اس وائرس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی کیوں کہ یہ 5 منٹ میں ہی پھیپھڑوں کو متاثر کرسکتا ہے‘۔

جب سیریز میں ڈاکٹر سے پوچھا گیا کہ کیا اس بیماری کا کوئی علاج ہے؟ تو اس پر انہوں نے کہا کہ ’فی الحال اس بیماری کا کوئی علاج نہیں‘۔

سیریز کی آگے کی اقساط میں دکھایا گیا کہ بچوں کو ہاتھ دھونے کی ہدایت کی جارہی ہے جبکہ صحیح طریقہ کار بھی سمجھایا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ لفظ کورونا دراصل مصری زبان سے لیا گیا ہے جس کے معنی سر کا تاج یا ہالہ ہیں، اس وائرس کا مشاہدہ صرف الیکٹران مائیکرو اسکوپ سے ہی کیا جاسکتا ہے جس میں وائرس کی شکل سولر کورونا (سورج کے گرد لاکھوں میل پر مشتمل علاقہ جہاں پلازما ہر جانب پھیلا ہوا ہے) کی طرح ہے، اسی وجہ سے اس وائرس کو کورونا کا نام دیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں