جی 20 ممالک کے 1.8 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ

اپ ڈیٹ 12 مئ 2020
41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بشمول 32 کروڑ ڈالر اصل قرضہ اور 9 کروڑ 53 لاکھ ڈالر بطور سود، اس سال  ادا کیے جانے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی
41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بشمول 32 کروڑ ڈالر اصل قرضہ اور 9 کروڑ 53 لاکھ ڈالر بطور سود، اس سال ادا کیے جانے تھے — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان کے جی 20 ممالک کے دسمبر تک قابل ادا 1.8 ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈولنگ کے مرحلے میں ہے اور وہ کسی کمرشل قرضوں کی ری شیڈولنگ طلب نہیں کر رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے وزارت اقتصادی امور کو 17 اپریل کو جی 20 ممالک کے نمائندگان سے غریب ممالک کے لیے اعلان کیے گئے قرضوں میں ریلیف کے حوالے سے مذاکرات کرنے کی اجازت دی۔

ای سی سی نے وزارت سے 11 مشترکہ قرض دہندگان سے قرضوں کی معطلی کے لیے بات چیت کرنے کے لیے کہا۔

ای سی سی نے وزارت کو مذاکرات کے بعد قرضوں کی ری شیڈولنگ معاہدے کی منظوری کے لیے ای سی سی سے رابطہ کرنے کی بھی تجویز بھی دی۔

مزید پڑھیں:کورونا وائرس کے باعث پاکستان کو مزید قرضوں کی ضرورت ہے، مشیر خزانہ

مجموعی طور پر قرضوں میں ریلیف کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سال مئی سے جون کے دوران 11 ممالک کو پاکستان کی جانب سے 1.8 ارب ڈالر کی ادائیگی معطل ہوجائے گی، یہ دونوں، قرض کی اصل رقم اور اس کے سود کی شکل میں ہیں، بعدازاں اس رقم کو دوبارہ ادائیگی کے شیڈول میں شامل کیا جائے گا۔

پاکستان پر ان ممالک کے کل 155 قرضوں کے تحت قابل ادا رقم تقریباً 20.7 ارب ڈالر ہے، جی 20 ممالک کے باقی 9 ممبران کی جانب سے پاکستان پر کوئی قرض نہیں۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ تقریبا 41 کروڑ 50 لاکھ ڈالر بشمول 32 کروڑ ڈالر اصل قرضہ اور 9 کروڑ 53 لاکھ ڈالر بطور سود، اس سال مئی اور جون میں ادا کیے جانے تھے۔

اسی طرح ایک ارب 38 کروڑ کی رقم، جس میں ایک ارب 17 کروڑ روپے کے اصل قرضے کی رقم بھی شامل ہے، جولائی سے دسمبر میں ادا کی جانی تھی۔

اب سے دسمبر تک کل قرضے جو پاکستان نے ادا کرنے ہیں وہ ایک ارب 79 کروڑ ڈالر ہیں جس میں بنیادی قرضے کی رقم ایک ارب 40 کروڑ ڈالر اور قرض پر سود کے طور پر 38 کروڑ 66 لاکھ ڈالر ہے۔

پاکستان نے 11 مئی 2020 سے جون 2021 کے درمیان 11 مشترکہ قرض دہندگان کو کل 2 ارب 58 کروڑ ڈالر قرض ادا کرنا ہے۔

اس عرصے کے دوران پاکستان کی جانب سے سب سے زیادہ سعودی عرب کو 62 کروڑ 50 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہیں، اس کے بعد چین کو 61 کروڑ 50 لاکھ ڈالر اور جاپان کو 57 کروڑ 80 لاکھ ڈالر، فرانس کو تقریباً 28 کروڑ ڈالر، امریکا کو 19 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور جرمنی کو 14 کروڑ 80 لاکھ ڈالر ادا کرنے ہیں۔

اس عرصے کے دوران ادا کیے جانے والے دوسرے قرضوں میں کوریا کو 7 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، کینیڈا کو 3 کروڑ 45 لاکھ ڈالر، روس کو 2 کروڑ 10 لاکھ ڈالر، اٹلی کو 90 لاکھ ڈالر اور برطانیہ کو 13 لاکھ ڈالر شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا 21-2020 کیلئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کا امکان

اسی سلسلے میں پیر کو جرمن سفیر اسٹیفن شلگچیک نے فرانسیسی سفیر ڈاکٹر مارک بیریٹی اور معاشی قونصلر اینیس بوتیر کے ہمراہ وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ سے فنانس ڈویژن میں ملاقات کی۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے سفیروں کو خوش آمدید کہتے ہوئے انہیں بتایا کہ وائرس کے پھیلاؤ سے قبل پاکستان اپنے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور سخت مالی نظم و ضبط کی بدولت مالی سال کے دوران شرح نمو میں 3 فیصد اضافہ متوقع تھا لیکن اب وائرس کے بعد شرح نمو اور ترقی کے اہداف کا تعین یا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

اس کے بعد مشیر خزانہ نے دونوں ممالک کے سفیروں سے جی-20 ممالک کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی تفصیلات کے حوالے سے گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ پاکستان کو موجودہ حالات میں مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ جی-20 فورم پر قرضوں کی ری شیڈولنگ کے حوالے سے ٹھوس مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ غریب ملکوں کو حقیقت میں مدد کی ضرورت ہے جبکہ پاکستان کو اس ریلیف پیکج سے سب سے کم فائدہ پہنچا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جی-20 ممالک کے قرض کی مد میں پاکستان کو جو 1.8 ارب ڈالر کی قسط دسمبر 2020 میں ادا کرنی ہے اس کا بھی شیڈول ازسرنو مرتب کیا جا رہا ہے۔

البتہ عبدالحفیظ شیخ نے واضح کیا کہ پاکستان کسی بھی کمرشل قرضوں کے شیڈول کو ازسرنو مرتب کرنے کی درخواست نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ مزید قرضوں کا بوجھ اٹھانے سے قبل فنانس ڈویژن ضروریات کو مدنظر رکھے گا کیونکہ اکثر اوقات لیے گئے قرض کی رقم پرانے قرض کو چکانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

اس موقع پر مشیر خزانہ نے دوست ممالک کی جانب سے کی جانے والی مدد پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ ان تین ممالک کے عوام کی بہتری کے لیے مستقبل میں بھی تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں