عالمی ادارہ صحت کے اراکین وائرس کیخلاف ردعمل کی آزادانہ تحقیقات پر رضامند

اپ ڈیٹ 20 مئ 2020
عالمی ادارہ صحت کی 73 ویں اسمبلی کا اجلاس سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا جس میں اکثر عالمی رہنماؤں نے آن لائن شرکت کی — فوٹو: رائٹرز
عالمی ادارہ صحت کی 73 ویں اسمبلی کا اجلاس سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہوا جس میں اکثر عالمی رہنماؤں نے آن لائن شرکت کی — فوٹو: رائٹرز

عالمی ادارہ صحت کے اراکین نے کورونا وائرس کے خلاف عالمی ردعمل کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔

جنیوا میں آن لائن منعقدہ عالمی ادارہ صحت کے سالانہ اجلاس میں تمام 194 اراکین نے کسی اعتراض کے بغیر تحقیقات کی منظوری دے دی جس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ اس وائرس کے خلاف عالمی ادارہ صحت کا کیا کردار رہا۔

مزید پڑھیں: بھارت، بنگلہ دیش کے مغربی حصے میں سمندری طوفان کا خطرہ

کورونا وائرس کے خلاف ردعمل کے معاملے میں امریکا نے عالمی ادارہ صحت کے کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

سالانہ اجلاس میں یورپی یونین نے اپنے 100 اراکین کی طرف سے قرارداد پیش کی جس میں وائرس کے خلاف بین الاقوامی ردعمل کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔

اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کے کورونا وائرس کے خلاف ردعمل کا بھی جائزہ لیا جائے گا کیونکہ عالمی ادارے کو یہ کہہ کر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ اس نے ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرنے میں کافی تاخیر کی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر کا کورونا سے بچنے کے لیے کلوروکوئن دوا کا استعمال

قرارداد میں کہا گیا کہ دنیا وائرس کے کسی علاج اور ویکسین تک شفاف، بروقت اور برابری کی بنیاد پر رسائی یقینی بنائے اور عالمی ادارہ صحت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی بھی تحقیقات کرے کہ اس وائرس کا اصل ذریعہ کیا ہے اور یہ کس ذریعے سے انسانی آبادی میں منتقل ہوا۔

عالمی ادارہ صحت کی اسمبلی کے صدر اور بہامس کے سفیر کیوا بین نے کہا کہ قرارداد پر کوئی بھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا لہٰذا قرارداد کو تسلیم کر لیا گیا۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے ملک میں وائرس سے سب سے زیادہ متاثرین اور اموات کا ذمے دار عالمی ادارہ صحت کو قرار دیتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ اس نے درست وقت پر اس مرض کے حوالے سے ایمرجنسی کا اعلان نہیں کیا اور دنیا کو اس مرض کی شدت کے حوالے سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس پر تحقیقات اس کے قابو میں آنے کے بعد کی جانی چاہیے، چین

انہوں نے عالمی ادارہ صحت کو چین کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے ادارے کی امداد بند کرنے کا اعلان کردیا تھا جس پر کئی ملکوں نے احتجاج کیا تھا کیونکہ امریکا، عالمی ادارے کا سب سے بڑا ڈونر ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ امریکی صدر نے چین کو وائرس کے پھیلاؤ کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ چین اپنا جرم چھپانے کی کوشش کر رہا ہے اور عالمی ادارہ صحت نے اس جرم کے لیے ان سے جواب طلب نہیں کیا۔

پیر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک خط کو شیئر کیا تھا جو انہوں نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر تیدروس ایڈہانوم کے نام تحریر کر کے بتایا تھا کہ امریکا کو دراصل عالمی ادارے سے کیا مسئلہ ہے۔

امریکی سیکریٹری صحت ایلکس آذر نے بھی کانفرنس میں ہونے والی گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وائرس کے قابو سے باہر ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت وہ معلومات جمع کرنے میں ناکام رہا جس کی دنیا کو ضرورت تھی اور اس ناکامی کی وجہ سے ہمیں کئی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔

جہاں ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ عالمی ادارہ صحت اور چین کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں وہیں ان کے حریف اسے امریکی صدر کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں تاکہ وہ وائرس کے خلاف ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹا سکیں اور رواں سال شیڈول صدارتی انتخاب میں کامیاب ہو سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: چین کی کورونا وائرس کے خلاف ویکسین جتنی 'مؤثر' نئی دوا

دوسری جانب آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اوربرطانیہ سمیت یورپی یونین کے دیگر ممالک نے کورونا وائرس سے نمٹنے کے معاملے کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

یورپی یونین کی ترجمان بتو ہینرکسن نے کہا کہ کئی اہم سوالات کے جوابات دیے جانے چاہیئیں، یہ وائرس کیسے پھیلا؟ اس وبا کا علاج کیا ہے؟ ہمارے لیے ان سوالات کا جواب جاننا انتہائی اہم ہے تاکہ ہم مستقبل میں ایسے کسی اور وبا سے بچ سکیں۔

البتہ یورپی یونین کی ترجمان نے کہا کہ یہ وقت کسی کو مورد الزام ٹھہرانے کا نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر آپ کی زندگی بچانے والے، کیا کہتے ہیں؟

دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے بھی وائرس سے نمٹنے کے حوالے سے حکمت عملی کی تحقیقات پر رضامندی ظاہر کردی ہے البتہ ادارے کے سربراہ نے بڑے پیمانے پر انتظامی تبدیلیوں کو مسترد کردیا۔

تیدروس ایڈہانوم نے عالمی ادارہ صحت کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جلد از جلد آزادانہ جانچ کی ضرورت ہے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ ہم اس سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں اور کیا تجاویز دی جا سکتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں