امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ وہ کئی روز سے روزانہ ملیریا کے علاج کے لیے دی جانے والی دوا ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کا استعمال کررہے ہیں۔

ایسا وہ نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے بچنے کے لیے کررہے ہیں۔

اب یہ کس حد تک درست ہے اس حوالے سے تو سائنسدان پہلے ہی امریکی صدر پر تنقید کررہے ہیں اور اب امریکا میں ہی ایک ایسی خاتون میں بھی کووڈ 19 کی تشخیص ہوگئی ہے جو لگ بھگ 2 دہائیوں سے ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کا استعمال کررہی تھیں۔

وسنکنسن سے تعلق رکھنے والی اس خاتون نے اے بی سی سے منسلک چینل ڈبلیو آئی ایس این کو بتایا کہ وہ 19 سال سے لپس (جلد کا ایک مرض) کے علاج کے طور پر اس دوا کا استعمال کررہی ہیں۔

یوایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے اس دوا کو جلد کے اس مرض، ملیریا اور ہڈیوں کی سوزش یا گٹھیا کے علاج کے لیے استعمال کرنے کی اجازت طویل عرصے سے دے رکھی ہے مگر اسے اب تک کووڈ 19 کے لیے علاج یا روک تھام کے لیے کھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

مگر جب خاتون کو علم ہوا کہ وہ کووڈ 19 کا شکار ہوچکی ہیں تو وہ حیرت زدہ رہ گئیں 'جب تشخیص ہوئی تو مجھے لگا جیسے سزائے موت سنادی گئی ہے، مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ میں بیمار کیسے ہوگئی، میں تو ہائیڈروآکسی کلوروکوئن استعمال کررہی ہوں'۔

انہوں نے کہا 'شروع میں ایسا ہی لگا مگر پھر مجھے پتا چلا کہ اب تک کسی نے بھی نہیں کہا کہ یہ علاج ہے یا آپ کو محفوظ رکھ سکتا ہے، اور یقیناً یہ دوا تحفظ نہیں دیتی'۔

خاتون کا نام کم بتایا گیا ہے اور ان کے بقول ان کا ماننا تھا کہ وہ وائرس کا شکار نہیں ہوسکتیں کیونکہ صدر ٹرمپ اس دوا کو موثر قرار دے رہے ہیں، حالانکہ بیشتر طبی ماہرین احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔

وہ سودا سلف لینے کے لیے ہی گھر سے نکلتی تھیں مگر پھر بھی اپریل کے وسط میں کورونا وائرس کی علامات سامنے آئیں۔

انہوں نے بتایا 'کمزوری، کھانسی اور بخار، بخار بہت تیز تھا، مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں دوڑتی ہوئی پہاڑ سے نیچے اتر رہی ہوں کیونکہ سانس لینا مشکل ہوگیا تھا'۔

ڈاکٹر کی تجویز کردہ اینٹی بائیوٹیکس سے آرام نہ آنے پر وہ طبی مرکز گئیں جہاں انکشاف ہوا کہ خون میں آکسیجن کی سطح میں 78 فیصد کی خطرناک کمی آچکی ہے۔

بعد ازاں ہسپتال میں وائرس کی تصدیق ہوئی اور انہیں داخل کرکے آکسیجن اور پلازما دیا گیا اورر ایک ہفتے بعد ڈسچارج کردیا گیا اور اب حالت بہت زیادہ بہتر ہے مگر اب بھی گھر پر آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

اس تجربے نے خاتون کو ان افراد کے خلاف غصے سے بھر دیا جو اس دوا وائرس کی روک تھام کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا 'آپ اس دوا کو لینے پر محفوظ نہیں، یہ وائرس کو روکنے والی نہیں اور آپ کورونا وائرس کا شکار ہوسکتے ہیں، اس چیز نے مجھے ٹرمپ کے خلاف غصے سے بھر دیا جو پوری دنیا کو اس کے استعمال کا مشورہ دیتا ہے'۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے اپنے کورونا وائرس کا ٹیسٹ منفی آنے کی نشاندہی اور علامات ظاہر نہ ہونے کا بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اس دوا کو احتیاطی تدابیر کے طور پر تقریباً ڈیڑھ ہفتے سے استعمال کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں روز ایک گولی کھاتا ہوں اور اس کے ساتھ زنک بھی لیتا ہوں‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا ہے اور میں نے اس کے بارے میں بہت سی اچھی کہانیاں سنی ہیں‘۔

دوسری جانب طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں وہ اس دوا کو محفوظ یا موثر یا کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے مددگار قرار نہیں دیتے بلکہ یہ جان لیوا مضر اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں