نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کا علاج یا ویکسین تو اب تک دستیاب نہیں مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی دوا کلوروکوئن کو اس کے لیے موثر قرار دیا تھا۔

بعدازں پاکستان میں بھی اس جانب توجہ دی گئی اور حکومت نے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے امراض کے لیے کلوروکوئن کے استعمال کے حوالے سے حتمی رائے کے لیے ماہرین کی ٹیم کی تشکیل دے دی تھی۔

مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ ادویات کووڈ 19 کے مریضوں کو فائدے کی بجائے نقصان زیادہ پہنچا رہی ہیں، کم از کم چین، فرانس اور برازیل میں ہونے والے ٹرائلز کے نتائج کچھ ایسے ہی رہے ہیں۔

کلوروکوئن اور ہائیڈروآکسی کلوروکوئن سے کسی حد تک کورونا وائرس کی علامات میں کمی لانے میں مدد ضرور ملی مگر ان ادویات سے دیگر اہم حصوں میں بہتری نظر نہیں آئی بلکہ مضر اثرات زیادہ خطرناک تھے۔

فرانس میں ہونے والی تحقیق کے دوران ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کا استعمال جن مریضوں کو کرایا گیا، ان میں اموات یا آئی سی یو میں داخلے کی شرح میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔

اسی طرح چین اور برازیل میں ہونے والے الگ الگ ٹرائلز میں بھی دونوں ادویات تیزی سے کورونا وائرس سے صحتیابی میں مدد دینے میں ناکام رہیں۔

درحقیقت برازیل میں تو 2 ہلاکتیں بھی ہوئیں جبکہ کچھ مریضوں میں دل کے مسائل سامنے آئے، جس کے بعد ٹرائل کو صرف 13 دن بعد ہی روک کر اس میں تبدیلی کی گئی۔

اس تحقیق میں 37 مریضوں کو کلوروکوئن کی زیادہ مقدار کا استعمال کرایا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان میں دل کی دھڑکن میں جان لیوا بے ترتیبی سے 2 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ 5 دیگر میں کیو ٹی انٹرول پرولونگیشن نامی عارضہ قلب کا مسئلہ ابھر آیا، جو اچانک موت کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

محققین نے اپنے نتائج میں کہا کہ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ اس دوا کی زیادہ مقدار کا استعمال کا مشورہ کووڈ 19 کے علاج کے لیے نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ یہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

بعد ازاں باقی بچ جانے والے مریضوں کے ساتھ مزید 40 متاثرہ افراد کو تحقیق میں شامل کرکے کم مقدار میں اس دوا کا استعمال کرایا گیا، جس کے نتائج آئندہ چند دن میں سامنے آئیں گے۔

فرانس میں ہونے والی تحقیق کے دوران ہائیڈرو آکسی کلوروکوئن کو 19 مریضوں کو استعمال کرایا گیا جو مارچ کے دوسرے ہفتے میں 4 ہسپتالوں میں داخل ہوئے تھے۔

ان افراد پر اس کے اثرات کا موازنہ ان 84 افراد کے ساتھ کیا گیا جن کو فوری طور پر یہ دوا دی گئی تھی اور ایسے 91 مریضوں کو بھی دیکھا گیا جن کو یہ دوا نہیں دی گئی تھی۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ اس دوا کے استعمال سے کووڈ 19 کے مریضوں کی موت یا آئی سی یو میں داخلے کا امکان کم نہیں ہوا جبکہ اس سے مریضوں میں سانس لینے کے مسائل کی تکلیف بھی کم نہیں ہوسکی۔

مگر اس کے استعمال سے کچھ خطرات ضرور سامنے آئے، 84 میں سے 8 افراد میں دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوگئی جس پر ان کے لیے دوا کا استعمال روک دیا گیا جبکہ ایک مریض دل کے ردہم کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ منفی نتائج کے بعد ہم اس دوا کے بڑے پیمانے پر استعمال کی مخالفت پر زور دیں گے۔

چین میں ہونے والی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن لوگوں کو ہائیڈروآکسی کلوروکوئن کا استعمال کرایا گیا ان کی حالت میں بہتری میں ایسے مریضوں کے مقابلے میں زیادہ تیزرفتار نہیں تھی، جن کو یہ دوا نہیں دی گئی۔

دونوں گروپس کے مریضوں میں 28 روزہ تحقیق کے دوران یکساں علامات ہی نظر آئیں، تاہم ہسپتال میں داخلے کے 2 ہفتے بعد جن مریضوں کو یہ دوا دی گئی، انہوں نے اپنی حالت میں دیگر کے مقابلے میں کچھ بہتری کا اظہار کیا۔

ان میں جسمانی ورم کی سطح بھی کم ہوگئی جو کووڈ 19 کی ایسی علامت ہے جو بڑھ جائے تو موت کا خطرہ بڑھتا ہے۔

اس کے علاوہ اس دوا کو استعمال کرنے والے 30 فیصد مریضوں نے کسی ایک سائیڈ ایفیکٹ کو رپورٹ کیا جبکہ دوسرے گروپ کے 9 فیصد افراد نے ایسا کیا، تاہم مکوئی بھی سائیڈ ایفیکٹس دل سے متعلق نہیں تھا۔

چینی محققین کا کہنا تھا کہ شواہد سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ دوا مریضوں میں ورم کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے جو پھیپھڑوں اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ان تینوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج فی الحال کسی طبی جرنل میں شائع نہیں ہوئے تو ان کو حتمی کہنا مشکل ہے مگر فی الحال ایسے شواہد نظر نہیں آتے جو ان دونوں ادویات کو کووڈ 19 کے لیے بہترین علاج ثابت کرسکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں