گوگل اور ایپل نے کووڈ 19 کے مریضوں کے سراغ لگانے میں مددگار ٹیکنالوجی کو آخرکار عام استعمال کے لیے متعارف کرادیا ہے۔

یہ کانٹیکٹ ٹریسنگ ٹیکنالوجی کا پہلا مرحلہ ہے جس میں ایک نوٹیفکیشن اے پی آئی سرکاری طبی ادارے اپنی موبائل ایپس کی تیاری کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

اپریل میں دونوں کمپنیوں نے اس ٹیکنالوجی کو متعارف کرانے کا اعلان کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس بلیوٹوتھ پروٹوکول کو کانٹیکٹ ٹریسنگ کا نام دیا جارہا ہے جو اسمارٹ فون کے ذریعے صارفین کو آگاہ کرے گا کہ وہ کورونا سے متاثر کسی فرد سے رابطے میں رہے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی پر مبنی ایپ استعمال کرنے والے کسی صارف میں اگر کووڈ 19 کی تشخیص ہوتی ہے تو سسٹم مریض کے قرب و جوار میں واقع اینڈرائیڈ فونز اور آئی فونز پر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لوگوں کو آگاہ کرے گا۔

کمپنیوں کو توقع ہے کہ اس سے وائرس کی روک تھام کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو اس کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے میں بھی مدد مل گی، تاہم یہ ٹول اسی وقت موثر ہوگا جب متعدد افراد اسے استعمال کرے۔

ایپل اور گوگل کا دعویٰ ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی میں لوگوں کی پرائیویسی کا خیال رکھا گیا ہے اور صارفین نوٹیفکیشنز اور تشخیص کی رپورٹ اپنی مرضی سے کرسکتے ہیں۔

اس سسٹم میں جی پی ایس لوکیشن ڈیٹا ٹریکنگ کو استعمال نہیں کیا گیا۔

کمپنیوں نے اس پر بھی زور دیا ہے کہ ٹیکنالوجی سے طبی حکام فیصلہ کرسکیں گے کہ کس طرح نوٹیفکیشنز فون تک پہنچیں یا ان کو روکا جائے۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکا کی متعدد ریاستوں اور 5 براعظموں کے 22 ممالک اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے اپنی ایپس تیار کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تاہم ان ممالک کے نام ظاہر نہیں کیے گئے۔

کچھ ممالک جیسے برطانیہ اور آسٹریلیا نے اسی طرح کی اپنی ایپس پہلے سے تیار کی ہوئی ہیں مگر انہیں سافٹ وئیر کی خامیوں اور سیکیورٹی مسائل کا سامنا ہے۔

اس ٹیکنالوجی کا دوسرا مرحلہ آئندہ چند ہفتوں میں پیش کیا جائے گا جو براہ راست آئی او ایس اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کا حصہ بن جائے گا۔

دوسرے مرحلے میں زیادہ موثر طریقے کو استعمال کرکے آپریٹنگ سسٹم کی سطح پر کانٹیکٹ ٹریسنگ کی جائے گی، جس کے لیے کسی ایپ کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں