افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ ان کی ٹیم طالبان سے کسی بھی وقت مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق طالبان سے تشکیل دی گئی افغان حکوت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ اور سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے دوران طالبان کی جانب سے عیدالفطر کے 3 دنوں کے لیے غیر متوقع جنگ بندی کے اعلان سے امن مذاکرات کے آغاز کی عکاسی ہورہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت اور طالبان کا عیدالفطر پر 3 روزہ جنگ بندی کا اعلان

مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بننے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ 'جنگ بندی کا اعلان، کشیدگی میں کمی اور قیدیوں کی رہائی کے تبادلے سے اچھی شروعات کے لیے راستہ ہموار ہوا ہے'۔

26 مئی کو امریکا اور طالبان نے افغان حکومت کی جانب سے 2 ہزار طالبان قیدیوں کو جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کرنے کے وعدے کا خیر مقدم کیا تھا۔

بعد ازاں طالبان کی جانب سے 3 روزہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اعلان کیا تھا کہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر افغان حکومت، 2 ہزار طالبان قیدیو کو رہا کردے گی۔

افغانستان میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جاوید فیصل نے کہا تھا کہ ہمیں اُمید ہے کہ اس کے ساتھ جنگ بندی بھی جاری رہے گی اور براہ راست مذاکرات کا آغاز ہوگا۔

مزید پڑھیں: زلمے خلیل زاد کا تمام فریقین سے افغانستان میں تشدد میں کمی کا مطالبہ

گزشتہ روز مشرقی افغانستان میں طالبان کے حملے میں 14 افغان فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ افغان حکام کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی سیز فائر کے سلسلے میں طالبان سے بات چیت کر رہے ہیں۔

طالبان نے پکتیا صوبے میں کیے گئے اس حملے کی ذمے داری قبول کی اور اسے ایک دفاعی حملہ قرار دیا البتہ انہوں نے اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

اس سے قبل ایک صحافی سمیع یوسف نے کہا تھا کہ اگر طالبان نے اپنے حملے جاری رکھے تو افغان حکومت 2 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کے وعدے کی پابند نہیں رہے گی۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد وہ میدان جنگ میں واپس نہیں آئیں گے۔

خیال رہے کہ 29 فروری 2020 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان حکومت کو 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرنا تھا تاہم اب تک حکومت نے ایک ہزار طالبان قیدیو کو رہا کیا ہے۔

امریکا-طالبان امن معاہدہ

یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ افغان حکومت طالبان کے 5 ہزار قیدیوں کو رہا کرے گی جس کے بدلے میں طالبان حکومت کے ایک ہزار قیدی رہا کریں گے۔

قیدیوں کے تبادلے کا عمل 10 مارچ سے قبل مکمل ہونا تھا اور طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا تاہم متعدد مسائل کی وجہ سے یہ عمل سست روی سے آگے بڑھا۔

مزید پڑھیں: بھارت کے حوالے سے زیر گردش خبروں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں، ترجمان

تاہم افغانستان میں تشدد کی حالیہ لہر نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، جن میں سے کچھ حملوں بشمول 12 مئی کو میٹرنٹی ہسپتال میں کیے گئے حملے کو داعش سے منسوب کیا گیا۔

جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے خلاف جارحانہ کارروائی کے دوبارہ آغاز کا حکم دیا تھا، افغان حکومت کے اعلان کے ردعمل میں طالبان نے کہا تھا کہ وہ افغان فورسز کے حملوں کے جواب دینے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

طالبان نے کہا تھا کہ اب سے مزید کشیدگی کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کے کاندھوں پر ہوگی۔

18 مئی کو قبل طالبان نے دوحہ معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ دہرایا تھا، دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ افغان مسئلے کا حل دوحہ معاہدے پر عمل میں ہے، قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل اور بین الافغان مذاکرات شروع ہونے چاہیئیں۔

تاہم اسی شب طالبان نے قندوز میں حملہ کیا، اس حوالے سے افغان وزارت دفاع نے کہا کہ حملے کو ناکام بنادیا گیا اور طالبان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں