چین ممکنہ طور پر دنیا کا پہلا ملک بن سکتا ہے جو ستمبر میں ہی کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز کو خطرے سے دوچار افراد کے لیے متعارف کراسکتا ہے چاہے اس دوران کلینیکل ٹرائل پر کام ہی کیوں نہ جاری ہو۔

برطانوی روزنامے ٹیلیگراف کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے مقابلے میں کورونا وائرس کے علاج کو متعارف کرانے کے لیے چین کے طبی حکام نے ویکسینز کے حوالے سے گائیڈلائنز کا مسودہ تیار کرلیا ہے۔

کسی بھی ملک کے مقابلے میں چین میں سب سے زیادہ 5 ویکسینز انسانی آزمائش کے دوسرے مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔

ویکسین کی تیاری میں کامیابی سے کورونا وائرس سے متاثر چین کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد ملے گی جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ویکسین کی تیاری کے تیز رفتار منصوبوں کو بھی دھچکا لگے گا۔

ویکسین کی تیاری پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک ملکان انسٹیٹوٹ کے ماہر معاشیات ولیم لی کے مطابق 'اگر چین ایسی ویکسین کے ساتھ آگے آیا جسے دنیا بھر میں قبول کرلیا جاتا ہے تو اس سے بہت زیادہ حاصل کرسکے گا'۔

چین کے وزیراعظم لی کی چیانگ نے رواں ہفتے ایک عالمی ویکسین کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ چین اب تک 4 ارب یوآن کووڈ 19 کی ویکسینز اور علاج کے لیے خرچ کرچکا ہے اور دوگنا سے زیادہ مزید خرچ کرے گا۔

اس وبا کے باعث چینی حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کے اہم شعبوں بشمول روبوٹیکس اور بائیومیڈیسین کے حوالے سے منصوبوں پر بھی کام تیز کردیا گیا ہے جبکہ مزید جراثیموں پر تحقیق کے لیے درجنوں لیبارٹریز کے قیام پر بھی کام کیا جارہا ہے۔

کورونا وائرس کے حوالے سے چین کی اہم ترین ویکسین کی تیاری میں سرگرم ٹیم کی سربراہ وائرلوجسٹ چن وائی نے بتایا 'ہمیں مخصوص شعبوں میں ٹیکنالوجی پر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے، ہمیں دیگر کی بجائے اپنی مضبوطی پر انحصار کرنا ہوگا، تاکہ ایک ارب سے زائد کی آبادی کا تحفظ کیا جاسکے'۔

چن وائی کی سربراہی میں تیار ہونے والی ویکسین کے لیے چین کے ایک فوجی طبی ادارے اور نجی بائیو ٹیک کمپنی کین سینو کے درمیان اشتراک ہوا ہے۔

اس ویکسین کے لیے ایک زندہ وائرس کو استعمال کیا جارہا ہے جو ایسے جینیاتی مواد کو انسانی خلیات میں پہنچائے گا، جو وائرس کے خاتمے میں مدد دے گا، درحقیقت یہ کسی روایتی ویکسین کے مقابلے میں زیادہ طاقتور مدافعتی ردعمل کو متحرک کرے گا۔

سائنسدانوں کی جانب سے اس ٹیکنالوجی پر دہائیوں سے کام ہورہا ہے خاص طور پر ایچ آئی وی کے حوالے سے، مگر ابھی تک انسانوں اسے آزمانے کی منظوری نہیں دی گئی۔

چین میں تیز ترین ٹرائلز کے لیے انتظامیہ کو بہت جلد رضاکاروں کی ضرورت ہوگی کیونکہ اب اس ملک میں کووڈ 19 کے مریضوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور ہوسکتا ہے کہ ویکسینز کی افادیت جانچنے کے لیے دیگر ممالک میں کام کرنا پڑے۔

وائرسز اپنی بقا کے لیے خود کو بدلتے ہیں اور ماہرین کے مطابق اس وقت جن ویکسینز پر کام ہورہا ہے ان کے حوالے سے اس خطرے کا سامنا ہے کہ وہ تیاری کے بعد موثر یا قابل استعمال نہ ہوں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وبا کا دورانیہ جتنا زیادہ طویل ہوگا، وائرس کی اقسام کا امکان بھی اتنا زیادہ ہوگا، مگر یہ اقسام انسانوں کے لیے زیادہ خطرناک ہوگی یا کم، اس کا انحصار جینیاتی تبدیلیوں پر ہوگا۔

مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ پیشرفت بہت تیزی سے ہورہی ہے، ہانگ کانگ یونیورسٹی کے پروفیسر نکولس تھامس کے مطابق 'بیشتر افراد اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ اس وائرس کو ہمارے ساتھ بمشکل 7 مہینے ہی ہوئے ہیں'۔

انہوں نے کہا 'عالمی سطح پر سیاسی طور پر جو کچھ بھی ہورہا ہے مگر تیکنیکی سطح پر حیران حد تک شراکت داری اور ڈیٹا شیئرنگ ہورہی ہے'۔

خیال رہے کہ اپریل میں چین کے طبی حکام نے امید ظاہر کی تھی کہ کووڈ 19 سے تحفظ دینے والی ویکسین ستمبر تک ایمرجنسی استعمال جبکہ عام افراد کے لیے اگلے سال کے ابتدا میں دستیاب ہوسکتی ہے۔

چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے سربراہ گائو فو نے چائنا گلوبل ٹیلیویژن نیٹ ورک کو بتایا تھا کہ کہ ملک میں اس وقت ویکسینز کے کلینیکل ٹرائلز دوسرے یا تیسرے مرحلے میں ہیں اور ممکنہ طور پر وہ اس وبا کی دوسری لہر کے وقت تک دستیاب ہوسکتی ہیں۔

گائو فو نے کہا 'ہم ویکسین کی تیاری کے حوالے سے صف اول میں ہیں اور امکان ہے کہ ستمبر تک ایمرجنسی استعمال کے لیے ایک ویکسین تیار ہوچکی ہوگی، یہ نئی ویکسینز لوگوں کے کچھ خصوصی گروپس جیسے طبی ورکرز کے لیے استعمال کی جاسکیں گی'۔

ان کا کہنا تھا 'ممکنہ طور پر عام افراد کے لیے ویکسین اگلے سال کی ابتدا میں دستیاب ہوگی، تاہم اس کا انحصار اس کی تیاری میں پیشرفت پر ہوگا'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں