پولش انجینیئر کو قتل کرنے والے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 2 اراکین گرفتار

اپ ڈیٹ 11 جون 2020
ملزمان سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا اور ان کے خلاف دھماکا خیز مواد رکھنے کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا — تصویر: اے پی
ملزمان سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا گیا اور ان کے خلاف دھماکا خیز مواد رکھنے کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا — تصویر: اے پی

لاہور: انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) اور محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب (سی ٹی ڈی) نے راولپنڈی میں مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے 2 اراکین کو گرفتار کرلیا جنہوں نے 2009 میں ایک پولش انجینیئر کو قتل کردیا تھا۔

انجینیئر پائیٹر استانکزیک کو راولپنڈی کے نزیک اٹک سے ستمبر 2008 کو اغوا کیا گیا تھا کہ جس کا مقدمہ نامعلوم اغوا کاروں کے خلاف بسال پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا۔

سی ٹی ڈی پنجاب اور ملک کی اعلیٰ ایجنسی نے کلیم اللہ اور فرید خان کو یکم جون کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب انہیں ان افراد کی ایک دہشت گردانہ کارروائی کے لیے راولپنڈی آمد کی انٹیلیجنس رپورٹ موصول ہوئی تھی۔

اس بریک تھرو کے بعد پولش انجینیئر کے اغوا کے بعد قتل کا مقدمہ اندراج کے 12 سال بعد تفتیش کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے افغانستان میں اہم رہنما کی ہلاکت کی تصدیق کردی

چھاپہ مار ٹیم نے ملزمان سے دھماکا خیز مواد بھی برآمد کیا اور ان کے خلاف دھماکا خیز مواد رکھنے کی دفعات کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیا گیا۔

اس پیش رفت سے باخبر ایک عہدیدار نے بتایا کہ فروری 2009 میں 7 منٹ کی خوفناک ویڈیو میں نامعلوم ملزمان کو پولش انجینیئر کا گلا کاٹتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مبینہ دہشت گردوں نے پائیٹر استانکزیک کو 4 ماہ سے زائد عرصے تک قید رکھا۔

ویڈیو میں دیکھا گیا تھا کہ زمین پر بیٹھے انجینیئر کو 2 نقاب پوش آدمیوں نے (آف کیمرہ) گرایا اور ایک عسکریت پسند نے اسے باتوں میں مشغول کیا اور دیگر 3 نے ان کا سر قلم کردیا۔

بعدازاں ان میں سے ایک نے اپنا ویڈیو بیان ریکارڈ کیا کہ پولش انجینیئر کو طالبان قیدیوں کو رہا نہ کرنے کے سبب قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں: کالعدم ٹی ٹی پی کی خالد سجنا کی ہلاکت کی تصدیق

عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’تفتیش کے دوران کلیم اللہ نے اعتراف کیا تھا کہ وہ پولش انجینیئر کے قتل میں شامل تھا اور فرید خان نے بتایا تھا کہ اغوا کے بعد انہیں درہ آدم خیل میں 15 روز قید رکھا گیا تھا۔

بعدازاں انجینیئر کو جنوبی وزیرستان منتقل کردیا گیا تھا جہاں 7 فروری 2009 کو انہیں قتل کردیا گیا۔

دہشت گردوں کی تفصیلات

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ 30 سالہ فرید خان زرغم خیل آفریدی قبیلے سے تعلق رکھتا ہے اور درہ آدم خیل کے حاجی نور علی قلعے میں رہائش پذیر تھا۔

اس کے علاوہ وہ دہشت گردی کی دیگر کارروائیوں میں بھی ملوث ہے جس میں اسپن، کوٹل پولیس اسٹیشن پر حملوں، تور سپر میں آپریشن کے دوران فوجیوں کے قتل عام حاجی نور علی قلعے میں لڑکیوں کے اسکول پر آئی ای ڈی حملے، کاکاخیل میں کان کنوں کے مالکوں کے اغوا اور قتل، کیول گاؤں میں قبیلے کے سربراہ کے قتل، امن لشکر پر متعدد حملوں، سی ڈی کی دکانیں تباہ کرنے اور اغوا برائے تاوان شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ٹی پی نے مفتی نور ولی محسود کو نیا امیر مقرر کردیا

ابتدا میں ملزم نے طارق گیدڑ گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد تحریک طالبان کے متعدد دھڑے تبدیل کرتا رہا۔

دوسری جانب کلیم اللہ بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور امن لشکر پر حملوں، دہشت گردوں کو پناہ دینے اور اغوا برائے تاوان کی متعدد کارروائیوں میں ملوث ہے۔

کیلم اللہ طارق آفریدی کا بہنوئی ہے، طارق گیدڑ جو ٹی ٹی پی کے طارق گیدڑ گروپ کا سربراہ ہے۔

اس کے علاوہ ملزم نے طارق گیدڑ کے ڈرائیور اور ذاتی گن مین کی حیثیت سے بھی کام کیا، عہدیدار کا کہنا تھا کہ تفیتش میں مزید انکشافات متوقع ہیں۔


یہ خبر11 جون 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں