پوسٹ بجٹ کانفرنس:’ہمیں اپنے خاندان کے کاروبار نہیں چلانے، عوام کو معیشت کا محور سمجھتے ہیں‘

اپ ڈیٹ 13 جون 2020
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز
مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے—تصویر: ڈان نیوز

مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ ہم اس طرح نہیں چلنا چاہتے کہ ہمارے خاندان اور ان کے کارخانے اور صنعتیں چلیں بلکہ ہم پاکستانی عوام کو معاشی سرگرمیوں کا محور سمجھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم جو کچھ کریں ان کے فائدے کو سامنے رکھ کر کریں۔

اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے ابتدائی 9 ماہ کے دوران بہت اہم کامیابیاں حاصل کیں، جب ہماری حکومت آئی تو قرض و واجبات کا حجم 300 کھرب روپے سے زائد تھا اس وجہ سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت کو ابتدائی 2 سال کے عرصے میں 50 کھرب روپے قرضوں کی مد میں ادا کرنے پڑے۔

انہوں نے کہا کہ اختتام پذیر ہونے والے موجودہ مالی سال میں حکومت نے27 کھرب روپے قرض کی ادائیگی کی اس لیے جو بھی حکومت کی کارکردگی کو جانچنا چاہے اس بات کو مدِ نظر رکھے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبوں کو حصہ دینے کے بعد مجموعی وسائل 20 کھرب روپے بنتے ہیں اور اس کے باوجود ماضی کے قرضوں کی مد میں 27 کھرب روپے ادا کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: کووڈ-19 کے باوجود بجٹ کے اہداف قابل حصول ہیں، مشیرخزانہ

مشیر خزانہ نے کہا کہ یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور حکومت نے فیصلہ کیا کہ اخراجات کو سختی سے کم کیا جائے گا اور پورے سال کے دوران ایسی چیزیں ہوئیں جس کی ماضی میں کبھی مثال نہیں ملتی، اسٹیٹ بینک سے ٹکا بھی نہیں لیا گیا اور کسی بھی ادارے کو ضمنی گرانٹ نہیں دی گئی اس لیے پہلی مرتبہ حکومتی اخراجات آمدنی سے کم رکھے گئے اور پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔

’کورونا سے معیشت کو 30 کھرب روپے کے نقصان کا اندیشہ ہے‘

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا مزید کہنا تھا کہ ٹیکسز کے حصول کی شرح میں 17 فیصد اضافہ ہورہا ہے اور اس سے بھی بڑھ سکتے تھے لیکن ہم نے جان بوجھ کر درآمدات کو کم کیا اور درآمد سے جو ٹیکس حاصل ہوسکتے تھے وہ کم ہوئے ورنہ ہماری مقامی معیشت میں ٹیکسز کے بڑھنے کی شرح 27 فیصد تھی، اس کی وجہ سے ہم نے پرائمری سرپلس حاصل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ حکومت آئی اس وقت سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ ملک کے پاس ڈالرز تقریباً ختم ہوچکے تھے اور ہم جو ڈالرز درآمد پر خرچ کر رہے تھے وہ برآمد کے مقابلے دگنے تھے اس وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے بلند سطح یعنی 20 ارب ڈالر پر تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا بڑے فیصلے کیے گئے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے 3 ارب ڈالر تک کم کردیا گیا اور 2 کھرب روپے پاکستانی شہریوں بالخصوص کمزور طبقے کی اعانت کے لیے رکھے گئے، اس کے علاوہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 11 سو ارب روپے تھا اس کی مد میں 16 سو ارب روپے حاصل کیے گئے۔

مزید پڑھیں: بجٹ 21-2020: سبسڈی بل میں40 فیصد تک کٹوتی

انہوں نے کہا کہ ان سب چیزوں کی وجہ سے ساری دنیا پاکستان کی کارکردگی کو سراہ رہی تھی، آئی ایم ایف بورڈ نے پاکستان کی کارکردگی کو سراہا، موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ بڑھائی، بلوم برگ نے دسمبر 2019 میں پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی سب سے بہترین اسٹاک مارکیٹ قرار دیا۔

’کورونا بحران کی وجہ سے ریونیو ہدف حاصل نہ کرسکے‘

مشیر خزانہ کے مطابق اس وجہ سے معیشت میں استحکام تھا اور بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری میں 137 فیصد اضافہ ہوا لیکن پھر کورونا وائرس آیا جس کی وجہ سے معیشت کو نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس سے معیشت کو 30 کھرب روپے کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، اگر یہ بحران آنے سے پہلے والی صورتحال برقرار رہتی تو ہم ریونیو کو 4 ہزار ارب تک پہنچا سکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کوئی بہانہ نہیں ہے یہ ایک حقیقت ہے اور اس سے دنیا بھر کی آمدنی کو 4 فیصد نقصان ہونے کا امکان ہے جس کے اثرات ہم پر بھی آئے جس کا حتمی اندازہ بعد میں ہی ہوگا۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم ساڑھے 4 ہزار ارب سے لے کر 4 ہزار 700 ارب روپے تک ریونیو کا ہدف حاصل کرسکتے تھے لیکن کورونا بحران کی وجہ سے بمشکل 3 ہزار 900 ارب روپے تک پہنچ سکے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں 7 سو ارب روپے کا نقصان سہنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: آئندہ مالی سال کیلئے 22 کھرب روپے سے زائد کے غیر ملکی قرض لینے کا تخمینہ

ان کا کہنا تھا کہ کاروبار زندگی معطل ہونے کی وجہ سے نوکریاں کم ہوئیں اور غربت میں اضافہ ہوا اس لیے حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلے سے احسن طریقے سے نمٹا جائے اور محدود ذرائع کے باوجود ہر ممکن گنجائش سے لوگوں کی مدد کی جائے۔

چنانچہ 12 کھرب روپے کا پیکج دیا گیا اور حکومت نے ایک کروڑ 60 لوگوں کو نقد رقم پہنچانے کا فیصلہ کیا جس میں سے ایک کروڑ سے زائد افراد کو یہ رقم پہنچائی جاچکی ہے اور ہر خاندان کے 6 سے 7 افراد کو شمار کیا جائے تو اس طرح آپ 10 کروڑ پاکستانیوں تک پہنچے۔

’اچھی پالیسز کے ذریعے ثمرات عوام تک پہنچائے گئے‘

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 2 کھرب 80 ارب روپے کی گندم خریدی تاکہ کسانوں کے پاس پیسہ جائے تو وہ ڈیمانڈ بڑھائیں، یعنی ٹریکٹرز، موٹر سائیکل خریدیں، گھروں کی مرمت کریں تاکہ معیشت میں طلب بڑھے۔

اس کے علاوہ حکومت نے بجلی کے بلز کی ادائیگی کا وعدہ کیا، ساتھ ہی 50 ارب روپے زراعت میں دیے گئے تا کہ کھاد کی قیمتیں کم ہوں، کارخانوں کو سبسڈی دی گئی اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے پے رول اخراجات کا نظام لایا گیا جس سے 6 لاکھ کارخانوں نے فائدہ اٹھایا۔

اسی طرح کسی کمپنی کا بینک سے لیے گئے پرنسپل قرض کو ایک سال تک کے لیے مؤخر کیا گیا اور یوٹیلیٹی بلز کے صارفین کے لیے ادائیگی کو 6 ماہ تک کے لیے موخر کیا گیا۔

انہوں نے کہا یہ سب فیصلے اس وقت کیے گئے جب حکومت کے پاس پیسے نہیں تھے اور جب تیل کی قیمت کم ہوئی تو حکومت نے یہ نہیں کیا کہ ٹیکسز بڑھا کر جتنا چاہے فائدہ حاصل کرے بلکہ کوشش کی گئی کہ جس قدر ممکن ہو عوام کو مستفید کیا جائے، اس لیے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کی گئیں بلکہ مٹی کے تیل کی قیمت ایک چوتھائی تک کم کی گئی۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ جو مالی سال اختتام پذیر ہورہا ہے اس میں بہت اچھی پالیسز کے ذریعے ثمرات عوام تک پہنچائے گئے لیکن اب ہمیں آگے کی جانب دیکھنا ہے۔

’قرضوں میں کمی کرنا ہمارے بس میں نہیں‘

انہوں نے کہا سب سے اہم چیز ملکی قرضوں کی واپسی ہے، جس سے ہم چھٹکارا نہیں پاسکتے گزشتہ 2 سالوں کے دوران 50 کھرب روپے واپس کیے گئے اور اس برس ہمیں 29 کھرب روپے کی ادائیگی کرنی ہے اس میں کمی کرنا ہمارے بس میں نہیں نہ اس میں ہمارا قصور ہے۔

مزید پڑھیں: بجٹ21-2020: کسٹمز، براہ راست ٹیکس کے استثنیٰ سے متعلق اہم معلومات

مشیر خزانہ نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ یہ 29 کھرب قرضوں کی ادائیگی کے بجائے پاکستانی عوام پر خرچ کیے جائیں ہم چاہیں گے کہ احساس پروگرام کو کئی گنا بڑھادیں لیکن ہمیں قرض کی ادائیگی کرنی ہے اس لیے کوشش کی گئی کہ حکومت کے اخراجات کم کریں جس کے لیے بہت مشکل فیصلے کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے جتنا عوام کو فائدہ دے سکتی ہے وہ دے اور جتنا کم ٹیکس لے سکتی ہے وہ لے لیکن اگر ہمیں 30 کھرب روپے قرض دینا ہے تو کہیں کٹوتی کرنی پڑے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بھی قرض لے رہے ہیں لیکن ہم قرض اس لیے نہیں لے رہے کہ ہمیں عیاشی کا شوق ہے یا وزیراعظم ہاؤس، ایوانِ صدر کا بجٹ بڑھایا جارہا ہے یا سول حکومت کے بجٹ میں اضافہ کیا جارہا ہے بلکہ ہمارے قرض لینے کا بنیادی مقصد ماضی کے قرضوں کی ادائیگی ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ بجٹ کی اہم چیزیں یہ ہیں اس میں ہم نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ عوام کورونا بحران کی وجہ سے مشکل میں ہیں اور ہم حکومتی اخراجات کو کم کریں گے، اس کے باجود ترقیاتی پروگرام کو بڑھائیں گے جس میں گزشتہ برس ایک کھرب روپے کا اضافہ کیا جس سے یہ ساڑھے 6 سو ارب روپے پر رکھا۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا احساس پروگرام کو بھی مزید بجٹ دیا جائے گا اور 12 کھرب روپے کی پیکج میں سے اگر کچھ رقم بچی تو اسے محفوظ کیا جائے گا تاکہ آئندہ برس استعمال کی جائے۔

’بجٹ میں کئی قسم کے ٹیکسز کم کیے گئے‘

مشیر خزانہ نے کہا کہ اسے ریلیف بجٹ اس لیے کہا جارہا ہے کیونکہ اس میں سے کئی ٹیکسز کم کیے گئے۔

تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 16 سو 23 ٹیرف لائنز یعنی ہزاروں قسم کے درآمدی خام مال پر ڈیوٹی کو ختم کیا جارہا ہے تاکہ کاروبار کی لاگت کم ہو اور لوگ اپنا کاروبار وسیع کرسکیں اور نوکریاں دے سکیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام کیلئے بجٹ میں 650 ارب روپے مختص

ان کا کہنا تھا کہ 200 ٹیرف لائنز جس میں خام اور نیم تیار شدہ چند ہزار اشیا موجود ہیں اور اس سے پیکجنگ، ربڑ، جوتے اور ہوم اپلائنسز کی صنعتوں کو فائدہ ہوگا اس میں ڈیوٹی کو ختم نہیں البتہ کم کیا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انجینئرنگ سیکٹر، کپڑوں، ایل ای ڈی ٹی وی، کمبلوں وغیرہ کے لیے 166 ٹیرف لائنز پر ریگولیٹری ڈیوٹیز کو کم کیا جارہا ہے اس سب کا مقصد کاروباری لاگت کم کرنا ہے۔

ڈیوٹیز کے علاوہ جس چیز میں کمی کی جارہی ہے وہ ودِ ہولڈنگ ٹیکس ہے اور 10 اقسام کے وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کیے جارہے ہیں اور درآمدات پر عائد وِڈ ہولڈنگ ٹیکس کو ساڑھے 5 فیصد سے کم کرکے ایک اور 2 فیصد تک لایا جارہا ہے۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ کئی ایسے سیکٹرز ہیں جن میں بہت مراعات دی جارہی ہیں اس سلسلے میں تعمیراتی شعبے کو تاریخی پیکج دیا گیا اور اب کیپیٹل گین ٹیکس کو نصف کیا جارہا ہے تاکہ اس شعبے میں نمو اور نوکریاں پیدا ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی میں 25 پیسے فی کلو کمی کی جارہی ہے اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ بڑے دکاندار مشینی اعتبار سے ایف بی آر سے منسلک ہوں اور جو اس پروگرام میں شامل ہوگا اس کے سیلز ٹیکس کو 14 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد کیا جارہا ہے تاکہ پکڑ دھکڑ کرنے کے بجائے لوگوں کو آٹومیشن کے ذریعے ٹیکس ادائیگی کی سہولت دی جائے۔

مزید پڑھیں: 71 کھرب 36 ارب روپے کا بجٹ پیش، کوئی نیا ٹیکس نہ عائد کرنے کا اعلان

ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ تنقید رہتی ہے کہ موجودہ ٹیکس دہندگان پر بوجھ نہ آئے اس لیے ہم ٹیکس نیٹ کو اس انداز میں توسیع دینا چاہتے ہیں اور ہاسپٹالٹی سیکٹر میں کم از کم ٹیکس کو ڈیڑھ فیصد سے کم کر کے نصف فیصد کیا جارہا ہے۔

اسی طرح کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے کٹس کی درآمدات پر ٹیکس اور ڈیوٹیز کو ختم کیا جارہا ہے جبکہ ٹیکسٹائل اور چمڑے کے دکانداروں کو ان کو پی او ایس میں لانے کے لیے ٹیکس کو 14 سے 12 فیصد کیا جارہا ہے۔

’اقتصادی ریلیف دینے کا مقصد نوکریاں پیدا کرنا ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا اس بڑے پیمانے پر ریلیف دینے کا مقصد ہے کہ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں اور حکومت اپنے پاس بھرتیاں کر کے نوکریاں نہیں دے سکتی لیکن نجی شعبے کو مراعات دے کر کرسکتی ہے۔

مشیر خزانہ نے کہا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا ہے دوسرا یہ کہ اتنی زبردست مراعات دی جارہی اس کے ساتھ ساتھ تیسری چیز یہ ہے کہ ٹیکس اور ڈیوٹیز سے ہٹ کر کئی ایسے قوانین ہیں جس میں تبدیلی کی جارہی ہیں تاکہ لوگوں کو کاروبار کرنے کے لیے آسانیاں دی جاسکیں۔

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ حکومت پورے سال نگرانی کرے گی جہاں کوئی کمی بیشی نظر آئی وہاں پالیسی ردعمل دیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: صحت 25 اور تعلیم کے لیے 83 ارب روپے سے زائد مختص

ان کا کہنا تھا کہ بڑے عالمی مالیاتی ادارے مثلاً آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اسلامی ترقیاتی بینک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نظم و ضبط سے چلنا چاہتے ہیں ہم لوگوں کی جیبوں میں ہاتھ نہیں ڈالتا چاہتے، ہم اس طرح نہیں چلنا چاہتے کہ ہمارے خاندان اور ان کے کارخانے اور صنعتیں چلیں بلکہ ہم پاکستانی عوام کو معاشی سرگرمیوں کا محور سمجھتے ہیں اور ہماری کوشش یہ ہے ہم جو کچھ کریں ان کے فائدے کو سامنے رکھ کر کریں۔

ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ احساس سلسلے کے تحت مزید پروگرام شروع کیے جائیں گے اور پی ایس ڈی پی میں مزید اسکیمیں متعارف کروائی جائیں گی۔

پریس کانفرنس کے بعد پوچھے گئے سوالات کے جواب میں ان کا کہنا تھا ایف بی آر کا ریونیو ہدف اس لیے بڑھایا گیا کہ کم از کم ہم کوشش تو کریں آمدن کی اس لیے ہم اضافی ٹیکس نہیں لگارہے اور ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن کوئی چیز یقینی نہیں کیونکہ معلوم نہیں کورونا وائرس کب تک رہے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں