صحافی ولی بابر کا سزا یافتہ مرکزی قاتل کراچی سے گرفتار

اپ ڈیٹ 16 جون 2020
ولی خان بابر کو 23 جنوری 2011 کو قتل کیا گیا تھا—فائل/فوٹو: ڈان
ولی خان بابر کو 23 جنوری 2011 کو قتل کیا گیا تھا—فائل/فوٹو: ڈان

کراچی پولیس نے 2011 میں صحافی ولی خان بابر کو گولی مار قتل کرنے والے ملزم کامران عرف ذیشان کو گرفتار کرلیا۔

کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن نے صوبائی وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ولی بابر جیو ٹی وی کا فعال کرائم رپورٹرتھا اس لیے میڈیا پر بہت اجاگر ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ولی خان بابر کو 23 جنوری 2011 کو قتل کیا گیا ہے جس میں 5 گواہ تھے جن میں سے پہلا گواہ رجب بنگالی کو 29 جنوری 2011 کو مارا گیا اور اسی طرح دیگر 4 گواہوں کو بھی مختلف مقامات پر قتل کیا گیا۔

مزید پڑھیں:ولی بابر قتل کیس: دو ملزمان کو سزائے موت

غلام نبی میمن نے کہا کہ جس گواہ کے بیان پر ملزم کو سزا ہوئی تھی اس کو 12 نومبر 2011 کو قتل کیا گیا جن کا نام حیدر علی تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں 8 ملزمان تھے جن میں سے ایک لیاقت علی ایک سال کے بعد مارا گیا جس کا ٹرائل نہیں ہوسکا۔

کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ 4 ملزمان کو تاحیات قید ہوئی جن کے نام شاہ رخ عرف مانی فیصل محمود عرف نفسیاتی، سید طاہر نوید عرف کولکا، سید محمد علی رضوی عرف علی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 2 ملزمان فیصل عرف موٹا کو سزائے موت ملی اور آخر میں شیخ محمد کامران عرف ذیشان عرف عثمان کو بھی انسداد دہشت گردی عدالت نے سزائے موت دی۔

انہوں نے کہا کہ سزائے موت پانے والے فیصل عرف موٹا اور عمر قید پانے والے 4 ملزمان 2015 تک پکڑے گئے لیکن شیخ محمد کامران مختلف مقامات میں چھپتا رہا۔

کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ملزم شیخ کامران عرف ذیشان کو آج صبح وفاقی ادارے کی خفیہ اطلاع پرہمارے اسپیشل انوسٹی گیشن یونٹ نے اسلحہ سمیت گرفتار کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں:ولی بابر قتل کیس: فیصل موٹا کی اپیل پر دوبارہ سماعت 21ستمبر کو ہوگی

انہوں نے کہا کہ یہ لانڈھی میں رہا پھر نائن زیرو منتقل ہوا جہاں 4 سے 5 سال بیٹھا رہا، جب وہاں چھاپے پڑے اور لوگ پکڑے گئے تو وہاں سے بھاگ گیا۔

ملزم کے حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم کے بھائی نے گلشن معمار میں ایک مکان کا انتظام کیا جہاں یہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔

پولیس چیف نے کہا کہ ملزم نے اب تک تفتیش میں 4 قتل کا بتایا ہے، یہ ایسا بندہ جس نے ولی بابر کو گولی ماری تھی اور مرکزی قاتل تھا اسی لیے عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ فیصل عرف موٹا اس کیس کا ماسٹر مائند تھا اس لیے اس کو بھی سزائے موت ملی۔

غلام نبی میمن نے کہا کہ شیخ کامران 2008 میں ایم کیو ایم لندن میں شامل ہوا اور فیصل موٹا کی ٹارگٹ کلنگ کی ٹیم میں تھا جبکہ ان کو ہدایت انیس الرحمٰن اور عامر عرف خالد سے ملتی تھی جو جنوبی افریقہ میں ایم کیو ایم لندن ٹارگٹ کلنگ ٹیم کے انچارج تھے اور وہاں سے ہدایات دیتے تھے۔

تفتیش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ملزم نے ولی خان بابر کو مارنے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ وہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے لیے کام کرتا تھا اور طالب علمی کے زمانے میں بھی پشتون تنظیم کے لیے کام کرتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے خلاف خبریں بنا کر ٹی وی پر چلاتا تھا اس لیے ان کو نشانہ بنایا گیا۔

کراچی پولیس چیف نے ملزم کے حوالے سے کہا کہ جب یہ ولی خان بابر کو قتل کرنے جارہے تھے تو اس وقت تین ٹیمیں موٹر سائیکل پر تھیں جس میں سے ایک ان کی تھی، دو کار کی ٹیمیں تھی اور مجموعی طور پر 5 ٹیمیں اس واردات میں شامل تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ولی بابر کو قتل کیا گیا تو اس کی موٹر سائیکل خراب ہوئی لیکن اس نے پروا کیے بغیر ولی بابر کو قتل کیا اور ٹوٹی ہوئی موٹرسائیکل لے کر وہاں سے نکل گیا۔

یاد رہے کہ نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے منسلک صحافی ولی بابر کو 13 جنوری 2011 کو کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا، وہ کراچی میں جرائم، عسکریت پسندی اور سیاسی جماعتوں کے حوالے سے رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔

بعد ازاں یکم مارچ 2014 کو شکار پور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے ولی خان بابر قتل کیس میں ملوث دو ملزمان کامران عرف ذیشان اور فیصل موٹا کو سزائے موت جبکہ 4 کو عمر قید کی سزا سنادی تھی۔

عدالت نے ثبوتوں کی عدم دستیابی پر ملزم محمد شکیل کو بری کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں