پاکستان کا افغان امن عمل کو نقصان پہنچانے والے ’تخریبی عناصر‘ سے متعلق انتباہ

اپ ڈیٹ 02 جولائ 2020
زلمے خلیل زاد اپنے وفد کے ہمراہ 3 روزہ دورے پر تاشقند سے پاکستان پہنچے تھے —فائل فوٹو: پی آئی ڈی
زلمے خلیل زاد اپنے وفد کے ہمراہ 3 روزہ دورے پر تاشقند سے پاکستان پہنچے تھے —فائل فوٹو: پی آئی ڈی

اسلام آباد: طویل المعیاد بین الافغان بات چیت کے لیے کوششیں جاری ہیں ایسے میں پاکستان نے افغانستان کے عمل کو نقصان پہنچانے والے ’تخریبی عناصر‘ سے خبردار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد سے کہا کہ ’افغان امن عمل انتہائی اہم مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اس لیے ہمیں ایسے عناصر سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو پیش رفت کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کریں۔

زلمے خلیل زاد اپنے وفد کے ہمراہ 3 روزہ دورے پر تاشقند سے پاکستان پہنچے تھے اور اس دورے میں وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ بھی جائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل کے خلاف کام کرنے والی قوتوں سے تحفظ ضروری ہے، دفتر خارجہ

تاشقند میں ان کی ملاقات ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان اور جمہوریہ کرغز کے وزرائے خارجہ سے ہوئی تاکہ افغان امن کوششوں کی حمایت پر زور دیا جائے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے امن کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان اور افغان تنازع کے پائیدار، پر امن اور سیاسی حل کے لیے بین الاقوامی اور علاقائی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرنے لیے پر عزم ہے‘۔

دوسری جانب امریکی سفارتخانے سے جاری ہونے والی بیان میں بتایا گیا کہ زلمے خلیل زاد کے ہمراہ امریکی انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ فنانس کارپوریشن کے چیف ایگزیکٹو افسر بوئیہیلر نے یکم جولائی کو اسلام آباد کا دورہ کیا اور انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر خارجہ شاہ محمود سے ملاقاتیں کیں۔

مزید پڑھیں: افغان امن عمل آخر آگے بڑھ کیوں نہیں رہا؟

امریکی سفارتخانے کے بیان کے مطابق اس موقع پر زلمے خلیل زاد نے امن عمل کو آگے بڑھانے کی کاوشوں پر پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کیا۔

وزیراعظم کے مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد سمیت سینئر پاکستانی عہدیداران سے ملاقاتوں میں بوئیہیلر نے ڈی ایف سی کے مشن پر روشنی ڈالی اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع پر گفتگو کی تاکہ خطے میں امن و استحکام میں حصہ ڈال جاسکے۔

خیال رہے کہ یو اسی ڈی ایف سی کو 2018 میں دنیا بھر کی کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ترقیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا، بہت سے افراد کو شبہ ہے کہ یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو اور اس کے سب سے بڑی منصوبے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٌپاکستان کی افغان امن عمل کی حمایت امن کیلئے سنجیدگی کا ثبوت ہے، آرمی چیف

ادھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بین الافغان مذاکرات اور ان کی شرائط کے اعلان کے لیے افغان حکومت اور طالبان کی تیاری کا خیر مقدم کیا۔

انہوں نے کہا کہ مذاکرات، دہائیوں سے تنازعات میں گھرے جنگ زدہ ملک میں طویل المیعاد امن کی راہ ہموار کریں گے۔

خیال رہے کہ افغان حکومت اور طالبان نے دوحہ میں بات چیت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے تاہم قیدیوں کی رہائی میں تاخیر سے یہ عمل ابھی تک شروع نہیں ہوسکا جسے امریکا اور طالبان کے درمیان ہوئے معاہدے کے بعد 10 مارچ سے شروع ہوجانا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کا عمل شروع

دوسری جانب طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر نے امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس میں کہا کہ مذاکرات شروع کرنے کا عمل میں تاخیر کی وجہ قیدیوں کی سست روی سے رہائی اور حکومتی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سیکیورٹی پوائنٹس کا قیام ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور پیچیدہ معاملہ پُرتشدد کارروائیوں کا ہے، طالبان کا کہنا تھا کہ ان کے جنگجوؤں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں داخل ہونے والی افغان فورسز کے خلاف ’آپریشنز‘ کیے ورنہ وہ پرتشدد کارروائیوں میں کمی کے سمجھتے پر عمل پیرا ہیں اور بڑے شہروں اور فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کررہے۔

تبصرے (0) بند ہیں