پی آئی اے، مقامی پروازوں کی مکمل بحالی کی جانب تیزی سے گامزن

اپ ڈیٹ 13 جولائ 2020
ترجمان کے مطابق دیگر شہروں کے لیے پروازوں میں اضافہ ہورہا ہے—فوٹو:اے ایف پی
ترجمان کے مطابق دیگر شہروں کے لیے پروازوں میں اضافہ ہورہا ہے—فوٹو:اے ایف پی

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے اسلام آباد اور کراچی کے درمیان روازنہ پروازوں کی تعداد دوگنی کردی جبکہ دیگر شہروں کے لیے بھی پروازوں کی بحالی جاری ہے۔

سرکاری نیوز ایجنسی 'اے پی پی' کی رپورٹ کے مطابق قومی ایئرلائن کے ترجمان عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ 'پی آئی اے کامیابی سے پروازوں کی بحالی کی جانب گامزن ہے اورکراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ کے لیے پروازوں میں اضافہ کررہی ہے'۔

مزید پڑھیں:پائلٹس کے مشکوک لائسنس: سول ایوی ایشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کی ضرورت کے پیش نظر پی آئی اے نے کراچی اور اسلام آباد کے درمیان روزانہ دو پروازوں کا فیصلہ کیا ہے۔

ترجمان کے مطابق کراچی سے لاہور کے لیے روزانہ ایک پرواز بھی چلائی جائے گی۔

عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے پہلے ہی متحدہ عرب امارات جانے اور واپسی کے لیے پروازوں کی تعداد میں اضافے پر کام کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، مشرق بعید کے ممالک اورعراق کے لیے خصوصی پروازیں بدستور جاری ہیں۔

یاد رہے کہ کورونا وائرس کے باعث پی آئی اے کی اندرونی پروازیں محدود کردی گئی تھیں جبکہ بیرون ملک پروازوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو بتدریج ہٹائی جارہی تھی کہ پائلٹس کے مشکوک لائسنس کے معاملے پر متعدد ممالک نے پروازوں پر پابندی عائد کردی۔

پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:پائلٹس کے مشکوک لائسنسز: امریکا نے بھی پی آئی اے کی پروازیں معطل کردیں

پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو 'مشکوک' قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔

غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ 'جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں'۔

جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا۔

29 جون کو ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پر مقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔

اگلے روزیورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔

اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی 'تجویز کردہ فہرست' سے ہٹا دیا تھا۔

جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی۔

اس کے بعد 3 جولائی کو ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔

7 جولائی کو یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے 32 رکن ممالک کو 'پاکستان میں جاری کردہ پائلٹ لائسنسز سے متعلق مبینہ فراڈ' کے حوالے سے خط لکھا اور ان پائلٹس کو فلائٹ آپریشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔

مزید پڑھیں: پائلٹس کے مشکوک لائسنسز: امریکا نے بھی پی آئی اے کی پروازیں معطل کردیں

امریکا نے دو روز قبل پی آئی اے کی خصوصی پروازوں پر پابندی کا فیصلہ کیا تھا جبکہ رواں برس اپریل میں پی آئی اے کو ایک سال کے لیے براہ راست پروازوں کی اجازت مل گئی تھی۔

ترجمان پی آئی اے عبداللہ خان نے اجازت نامے کی منسوخی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اجازت نامے کے تحت پی آئی اے کی 6 پروازیں آپریٹ ہوچکی تھیں۔

عبداللہ خان نے بتایا تھا کہ پی آئی اے کو حاصل خصوصی اجازت کے تحت امریکا کے لیے 12 پروازوں کی منظوری دی گئی تھی۔

امریکا کے لیے پروازوں کی معطلی کی وجہ کے بارے میں انہوں نے بتایا تھا کہ پروازوں کا اجازت نامہ پائلٹس کے مشتبہ لائسنسز اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کی کارروائی کے باعث منسوخ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اجازت نامہ منسوخ کیے جانے کی ای میل موصل ہو چکی ہے تاہم امریکی اعتراضات دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں