ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس: آصف زرداری پر ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 15 جولائ 2020
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس پر حکم نامہ جاری کر دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس پر حکم نامہ جاری کر دیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس میں آصف علی زرداری پر ویڈیو لنک کے ذریعے فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نیب کو فرد جرم کے لیے ویڈیو لنک کے انتظامات کرنے کا حکم دے دیا۔

احتساب عدالت کے جج اعظم خان نے ٹھٹہ واٹر سپلائی ریفرنس پر حکم نامہ جاری کیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے کورونا اور بیماریوں کی وجہ سے عدالت میں پیش ہونے سے معذرت کی جس پر احتساب عدالت نے ویڈیو لنک کے ذریعے آصف زرداری پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔

عدالت نے آصف زرداری کے شریک ملزم اشفاق لغاری کو بھی اشتہاری قرار دیتے ہوئے اسے مقدمے سے الگ کردیا۔

مزید پڑھیں: پارک لین ریفرنس: آصف زرداری پر ایک مرتبہ پھر فرد جرم عائد نہ ہوسکی

واضح رہے کہ عدالت نے آصف علی زرداری سمیت 14 ملزمان کو 4 اگست کو طلب کر رکھا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹھٹہ واٹر سپلائی کیس میں نامزد دیگر ملزمان میں ندیم بھٹو اور عبدالغنی مجید شامل ہیں۔

آصف علی زرداری کو اس کے علاوہ مہنگی گاڑیوں کے حوالے سے توشہ خانہ ریفرنس کا بھی سامنا ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی بھی اس کیس میں نامزد ملزمان ہیں۔

گزشتہ روز آصف علی زرداری پر پارک لین ریفرنس میں فرد جرم عائد کی جانی تھی تاہم عدالت نے معاملہ 21 جولائی تک مؤخر کردیا۔

آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ ان کے موکل پارک لین کے ڈائریکٹر تھے تاہم انہوں نے کمپنی سے 2008 میں صدر مملکت بننے سے قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: توشہ خانہ ریفرنس: نواز شریف کی طلبی کا اشتہار جاری، زرداری کے وارنٹ گرفتاری نیب کو ارسال

ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان کے موکل کے خلاف ریفرنس دائر کرتے ہوئے تمام مالیاتی قوانین کو نظر انداز کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب آصف علی زرداری کے خلاف اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی لازمی منظوری / ریفرنس کے بغیر اس کیس میں کارروائی نہیں کرسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ جان بوجھ کر ڈیفالٹ ہونے کا معاملہ تھا اور اسٹیٹ بینک واحد فورم تھا جو ان کے موکل کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتا تھا لیکن معاملہ نیب نے اٹھالیا اور متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی میں اکیلے ہی اس معاملے کو آگے لے کر گیا۔

مالی قوانین کے حوالے سے انہوں نے نشاندہی کی کہ 30 اکتوبر 2009 کو جبپارتھینون پرائیویٹ لمیٹڈ نے قرضہ حاصل کیا تو آصف زرداری کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں تھے بلکہ وہ پارک لین کے صرف ایک شیئر ہولڈر تھے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے آصف علی زرداری کا استعفیٰ قبول کرلیا تھا تاہم وہ اس بارے میں اس وقت سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو آگاہ نہیں کرسکے تھے۔

جب جج نے استفسار کیا کہ پارتھینان، جب قرض وصول کررہے تھے تو پارک لین نے اس کی جائیدادوں کو مورٹ گیج کیا؟ تو فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ وہ ایک طرح کی شراکت میں ہیں اور سابق نے مؤخر الذکر کو تعمیراتی منصوبے کی پیش کش کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل بینک آف پاکستان کی کریڈٹ کمیٹی نے پارتھینان کے لیے قرض کی منظوری دی تھی لیکن نیب نے ریفرنس میں این بی پی کے کسی ایک عہدیدار کو بھی شامل نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اس کیس میں ملزم ہوسکتے ہیں ان کو بطور استغاثہ گواہ درج کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں