پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے بارے میں جو کہا ہے اس کے بعد نیب کے رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا اور چیئرمین نیب میں اگر کوئی شرم اور حیا ہے تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم تو کہتے تھے کہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لیے اور سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اب سپریم کورٹ بھی یہی بات کہہ رہی ہے، سپریم کورٹ کے حکم میں نیب، اسٹیبلشمنٹ اور کٹھ پتلی سیاسی جماعتوں کا احتساب کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نیب کو بند کردیا جائے، اس غیر آئینی، غیر جمہوری ادارے کے دروازوں کو تالا لگادیا جائے۔

بلاول بھٹو نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنانے کے بعد کہا کہ اس فیصلے کے بعد کیا اس ادارے کی موجودگی آئینی ہے؟ پاکستان پیپلز پارٹی کا ہمیشہ سے مؤقف ہے کہ نیب آرڈیننس ایک آمر کا بنایا ہوا کالا قانون ہے جسے سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: عمران خان کا وزیراعظم رہنا ہر پاکستانی کی زندگی کیلئے خطرہ بن چکا ہے، بلاول بھٹو

انہوں نے کہا کہ کیا ہمارا مؤقف آج درست ثابت نہیں ہوگیا، ہم اس معاملے کو یہاں نہیں چھوڑ سکتے، پارلیمان اور جمہوری جماعتوں کو اس پر فوری ایکشن لینا چاہیے۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پہلا قدم ہمارا یہ ہونا چاہیے کہ نیب کو فوری طور پر بند کردیں اور تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈز مل کر سب کے احتساب کے لیے ایسی قانون سازی کریں جس میں سب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے تا کہ حقیقت میں کرپشن کا خاتمہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ جب نیب کے ذریعے حکومتیں بنائی جائیں، سیلکٹڈ بونوں کو اقتدار میں لایا جائے تو پھر یہی ہوتا ہے جو پاکستانی معیشت، معاشرے، جمہوریت کا آج حال ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب سپریم کورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ نیب حکومتی اراکین کے کیسز پر کوئی کارروائی نہیں کررہا تو اس حوالے سے نیب کو وضاحت دینی چاہیے، نیب کو عملی طور پر بی آر ٹی، مالم جبہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی پاکستان پوسٹ کے بارے میں رپورٹ، فارن فنڈنگ کیس، آٹا چوری، چینی چوری، تیل چوری اور مشیروں اور معاونین نے جو اثاثے ظاہر کیے اس پر فی الفور کارروائی کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیں:اگر اسامہ بن لادن شہید، تو وزیراعظم کا اے پی ایس، آپریشن ضرب عضب پر کیا مؤقف ہے، بلاول

انہوں نے کہا کہ اگر یہاں ہم ہوتے اور ہم یہ اثاثے سامنے لاتے تو نیب کی حراست میں آمدن سے زائد اثاثہ جات کا کیس بھگت رہے ہوتے تو یہ دوغلی پالیسی کیوں، نیب کی منافقت میری سمجھ سے باہر ہے، ایسے دوغلے نظام میں چیئرمین نیب کس طرح ٹی وی پر کہتے ہیں کہ سر سے پاؤں تک احتساب ہوگا، فیس نہیں کیس دیکھتے ہیں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان کے عوام کے ساتھ مذاق بند کیا جائے، ملک ایک تاریخی معاشی بحران، عالمی وبا، ٹڈی دل سے گزر رہا ہے اس پر توجہ دی جائے، عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے اور سیاسی انجیئرنگ اس بحران کے دوران ختم ہونی چاہیے لیکن افسوس کی بات کہ ایسا نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہا کہ نیب تو ہے ہی اب ایف اے ٹی ایف کے نام پر. ایسے قانون لانا چاہتے ہیں جس سے حکومتی اداروں کو ہر شہری کو پکڑنے کی اجازت مل جائے گی، اس میں انسانی حقوق کا تحفظ نہیں ہوگا اور صرف دہشت گردی کے الزام پر آپ کو اٹھایا لیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ نیشنل ایکشن پلان، ایف اے ٹی ایف کے اہداف اور انتہا پسندی کے خلاف صفِ اول کا کردار ادا کیا ہے، اگر حکومت ہم سے بات کرتی تو ہم اس پر حمایت کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاک ڈاؤن مسلط کرنے والی ایلیٹ کلاس کون ہے، بلاول بھٹو

ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں احسان اللہ احسان کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا آج تک جواب نہیں دیا گیا اور وزیراعظم سے اسامہ بن لادن کے بیان پر وضاحت مانگی گئی تو وہ بھی موصول نہیں ہوئی لیکن جب میں پریس کانفرنس میں کرپشن کا جواب مانگتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اس دور کی حکومت کی تاریخ کی کرپٹ ترین حکومت قرار دیا ہے تو احسان اللہ احسان کی دھمکی آجاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس دن سے آج تک دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کی قانون سازی کرنے والوں کی جانب سے کوئی بیان، کوئی مذمت اور کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ مجھے دھمکی دینا ہے دے دو لیکن احسان اللہ احسان اے پی ایس دہشت گردی میں ملوث تھا اس لیے حکومت جواب دے کہ اس کے خلاف کیس کیوں نہیں چلا، یہ کس کی حراست میں تھا اور اتنا بڑا دہشت گرد کس طرح فرار ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بلاول بھٹو کا شہباز شریف سے رابطہ، اتحاد کیلئے امیدیں زور پکڑ گئیں

انہوں نے مزید کہا کہ خورشید شاہ سمیت نیب کے تمام قیدیوں کو رہا کیا جائے، معاشرے سے ناانصافی ختم کی جائے۔

ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو نے کہا کہ شہباز شریف کے صحت کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، وہ کینسر کے مریض ہیں اس لیے انہیں کووِڈ 19 سے زیادہ خطرہ ہے اور جو لوگ اسے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) میں فاصلے سے تعبیر کررہے ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ دونوں جماعتوں میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پارٹی اجلاس میں لوگ اپنی رائے دیتے ہیں جس کی مس رپورٹنگ ہوئی لیکن مجموعی رائے دونوں جماعتوں میں اتفاق رائے قائم کرنا ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مڈ ٹرم انتخابات یا پارلیمان میں نئی حکومت کے آپشنز پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہے لیکن ہم اے پی سی کا انتظار کررہے ہیں تا کہ اس میں مشورہ کر کے اتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی مائنس ون کی حامی نہیں اور ہم نے کبھی اس ایشو کو نہیں چھیڑا، یہ خود وزیراعظم نے کہا ہے، ہمارا شروع دن سے یہ مطالبہ ہےکہ سیاسی جماعتوں کو مساوی مواقع دیے جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں