اے پی ایس شہدا فورم کے رہنما قاتلانہ حملے میں محفوظ

اپ ڈیٹ 22 جولائ 2020
انہوں نے سانحہ اے پی ایس میں اپنے بیٹے کو کھودیا تھا   —فوٹو: ایڈووکیٹ فضل خان ٹوئٹر اکاؤنٹ
انہوں نے سانحہ اے پی ایس میں اپنے بیٹے کو کھودیا تھا —فوٹو: ایڈووکیٹ فضل خان ٹوئٹر اکاؤنٹ

پشاور: آرمی پبلک اسکول شہدا فورم کے مرکزی رہنما ایڈووکیٹ فضل خان پشاور کے علاقے کاک شال میں قاتلانہ حملے میں محفوظ رہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایڈووکیٹ فضل خان نے یکہ توت پولیس کو بتایا کہ وہ منگل (21 جولائی) کے روز پشاور ہائی کورٹ سے اپنے گھر واپس جارہے تھے جب سٹی سرکلر روڈ پر رومان شادی ہال کے قریب 2 موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کردی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے گاڑی کو ریورس گیئر میں ڈالا اور تیزی سے جائے وقوع سے نکل گئے۔

مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: شہید طلبہ کے والدین کی اُمیدیں سپریم کورٹ سے وابستہ

خیال رہے کہ 16 دسمبر، 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد حملے میں انہوں نے اپنے بیٹے عمرخان کو کھو دیا تھا۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد سے ایڈووکیٹ فضل خان اسکول کے شہید بچوں، اساتذہ اور دیگر عملے کے اراکین کے لیے مہم چلارہے ہیں اور انصاف طلب کررہے ہیں۔

گزشتہ برس ایڈووکیٹ فضل خان نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت، ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو رہا کرنے کے لیے تیار ہے، انہوں نے عدالت سے نوٹس لینے اور حکومت کو اس سے روکنے کی استدعا کی تھی۔

یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 6 دہشت گردوں نے اے پی ایس پر بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے طلبہ سمیت 140 سے زائد افراد کو شہید کردیا تھا۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھا اور حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: ’کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں سربمہر رپورٹ جمع کرادی‘

جس کے بعد اپریل 2018 میں بچوں کے والدین کی درخواست اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں 9 مئی 2018 کو چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے سانحے کی تحقیقات کے لیے پشاور ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل کمیشن بنانے کے لیے زبانی احکامات جاری کیے تھے تاہم ہائی کورٹ کو تحریری احکامات موصول نہیں ہوئے تھے جس کے باعث کمیشن تشکیل نہیں پایا تھا۔

عدالت عظمیٰ نے 5 اکتوبر 2018 کو کیس کی سماعت کے دوران کمیشن کی تشکیل کے لیے تحریری احکامات صادر کر دیئے تھے۔

جس کے بعد اکتوبر 2018 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں اے پی ایس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دیا تھا اور یہ کمیشن 19 اکتوبر 2018 کو فعال ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل

تقریباً 20 ماہ تک وسیع پیمانے پر کارروائی کے بعد کمیشن کے پریزائیڈنگ افسر جسٹس محمد ابراہیم نے 9 جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کو رپورٹ پیش کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں