کووڈ 19 کی ایک نئی قسم اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام ہے اور اصل وائرس کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے پھیل گئی ہے۔

یہ دعویٰ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک طبی ماہر نے کیا۔

برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر نک لومان نے بتایا کہ کورونا وائرس کی یہ قسم جسے ڈی 614 جی کا نام دیا گیا ہے، دنیا بھر میں کووڈ 19 کے کیسز میں نمایاں حد تک اثرانداز ہوئی ہے۔

پروفیسر نک لومان کووڈ 19 جینومکس کنسورشیم کا بھی حصہ ہیں جو اس وائرس کے حوالے سے کام کررہا ہے۔

اگرچہ ایسا نہیں کہ وائرس کی نئی قسم لوگوں میں اموات یا ہسپتالوں میں قیام کا عرصہ بڑھا رہی ہے، مگر اس نے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر اس وبا کو پھیلنے میں ضرور مدد دی۔

پروفیسر نک لومان کے مطابق یہ انکشافات اس وقت سامنے آئے جب سائنسدانوں نے برطانیہ میں اس وائرس کے 40 ہزار سے زائد جینومز کا تجزیہ کرکے دریافت کیا کہ ڈی 614 جی انسانوں میں بہت تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بی بی سی ریڈیو 4 سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا 'یہ اسپائیک پروٹین میں موجود ہوتا ہے، جو کہ کورونا وائرس کے لیے انسانی خلیات میں داخلے کا اہم ترین ذریعہ ہے اور ہم نے دیکھا کہ برطانیہ اور دنیا بھر میں وائرس کی یہ قسم سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا 'اس نئی قسم کی پیشگوئی پہلے کمپیوٹر ماڈلنگ میں ہوئی تھی جس میں اس کے پروٹین کی ساخت اور خلیات میں داخل ہونے کی صلاحیت کو دیکھا گیا اور ثابت ہوا کہ وائرس خلیات کو بہت تیزی سے جکڑنے اور ان کے نظام کو ناکارہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے'۔

پروفیسر نک نے بتایا کہ ان کے خیال میں وائرس کی یہ نئی قسم کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری کے عمل پر اثرانداز نہیں ہوسکے گی۔

ان کے بقول 'یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ عام قسم ہے جس کے کیسز کی شرح 75 فیصد ہے، ووہان میں پھیلنے والا اصل وائرس ڈی ٹائپ کا تھا، مگر جی ٹائپ برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اب پھیلنے والی قسم ہے'۔

تاہم انہوں نے اس خدشے کو مسترد کیا کہ وائرس کی نئی قسم کا مطلب یہ ہے کہ یہ وبا نئے جان لیوا مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔۔

انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم کے اثرات زیادہ پھیلنے سے ہٹ کر زیادہ نمایاں نظر نہیں آتے۔

ان کے بقول 'اس کا اثر معمولی ہے، یہ ہمارا خیال ہے مگر ہم اس حوالے سے مکمل پراعتماد نہیں تھے، مگر ہم نے ٹیسٹنگ کے ذریعے یہ جاننے کی کوشش کہ برطانیہ میں اس وقت کیا ہوا جب جی ٹائپ تیزی سے پھیلنا شروع ہوئی اور اس نے ڈی قسم کو پیچھے چھوڑ دیا'۔

انہوں نے بتایا 'ہم نے مریضوں کی بقا اور ہسپتال میں قیام کے دورانیے کے حوالے سے اس نئی قسم کے نمایاں اثرات کو نہیں دیکھا، ہمیں نہیں لگتا کہ اس قسم نے بیماری کی ساخت کو تبدیل کیا ہے، اس کا اثر پھیلاؤ میں نظر آتا ہے'۔

اس سے پہلے رواں ماہ کے شروع میں امریکا میں ایک طبی تحقیق میں بھی یہی بات سامنے آئی تھی۔

لا جولا انسٹیٹوٹ فار امیونولوجی کی تحقیق میں شامل محقق ایریکا اولیمن شیپری کا کہنا تھا 'یہ نئی قسم اب وائرس کی نئی شکل ہے'۔

جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق اس تحقیقی ٹیم کے سابقہ کام پر مبنی تھی جو کچھ عرصے پہلے پری پرنٹ سرور میں شائع کی گئی تھی، جس میں جینیاتی سیکونس کے تجزیے کے بعد عندیہ دیا گیا تھا کہ ایک نئی قسم نے دیگر پر سبقت حاصل کرلی ہے۔

اب تحقیقی ٹیم نے نہ صرف مزید جینیاتی سیکونسز کا جائزہ لیا بلکہ لوگوں، جانوروں اور لیبارٹری میں خلیات پر بھی تجربات کرکے ثابت کیا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم زیادہ عام اور دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔

ایریکا اولیمن کے مطابق ہم اب جانتے ہیں کہ نیا وائرس کتنا پھیل چکا ہے مگر پہلی نظر میں یہ زیادہ بدتر نہیں لگتا۔

یہ نئی قسم وائرس کے اسپائیک پروٹین پر اثرانداز ہوئی ہے یعنی وائرس کی وہ ساخت جو خلیات کو متاثر کرتی ہے اور اب محققین یہ جانچ پڑتال کررہے ہیں کہ اسے کنٹرول کرنے کے حوالے سے ویکسین پر یہ نئی قسم کیا اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

اس وقت جن ویکسینز پر کام کیا جارہا ہے ان میں سے بیشتر اسپائیک پروٹین کو ہی ہدف بنارہی ہیں، مگر وہ وائرس کی پرانی اقسام کو پر مبنی ہیں۔

اس نئی تحقیق میں پہلے کے کام کی تصدیق کی کہ وائرس کی نئی قسم زیادہ عام ہے اور محققین نے اسے جی 614 کا نام دیا ہے اور محققین نے ثابت کیا کہ یہ قسم لگ بھگ پہلے ورژن ڈی 614 کی جگہ امریکا اور یورپ میں لے چکی ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ عالمی ٹریکنگ ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ جی 614 زیادہ تیزی سے پھیلی، یعنی یہ وائرس پہلے سے زیادہ متعدی ہوگیا، مگر ہم نے ایسے کوئی شواہد نہیں دیکھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قسم بیماری کی شدت پر اثرانداز ہوئی ہے۔

برطانیہ کی واروک یونیورسٹی کے پروفیسر لارنس ینگ (جو اس تحقیق کا حصہ نہیں تھے) نے کہا کہ یہ ممکنہ طور پر اچھی خبر ہے 'اس حالیہ تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ اگرچہ جی 614 زیادہ متعدی قسم ہے، مگر یہ زیادہ جان لیوا نہیں، جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ایک امید پیدا ہوئی ہے کہ یہ وائرس شاید کم بیمار کرنے والا بن جائے۔

تحقیقی ٹیم نے یورپ اور امریکا بھر میں مریضوں میں وائرس کے جینومز کے سیکونسز کے نمونے جمع کیے اور ان کا موازنہ پہلے سے موجود سیکونسز سے کیا گیا، جس سے انہیں دونوں اقسام کے پھیلاؤ کا نقشہ تیار کرنے میں مدد ملی۔

محققین کا کہنا تھا کہ یکم مارچ 2020 تک جی 614 یورپ سے باہر نہ ہونے کے برابر تھا مگر مارچ کے آخر تک دنیا بھر میں پہنچ چکا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس نئی قسم کا پھیلاؤ لاک ڈاؤن کے بعد بھی برقرار رہا اور یہ بالادست قسم بن گئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ نئی قسم نظام تنفس کی بالائی نالی یعنی ناک، نتھنوں اور حلق میں کئی گنا تیزی سے پھیلتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے متاثرہ فرد سے کسی صحت مند شخص میں منتقل ہوتی ہے۔

مگر انہوں نے برطانیہ میں زیرعلاج ایک ہزار مریضوں کے ٹیسٹوں میں دریافت کیا کہ جو لوگ اس نئی قسم سے متاثر تھے، ان میں اصل وائرس کے شکار لوگوں کے مقابلے میں بیماری کی شدت زیادہ بدتر نہیں ہوتی۔

ڈیوک یونیورسٹی ایڈز ویکسین ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لیبارٹری کے ڈائریکٹر ڈیوڈ مونٹے فیورے نے کہا 'ہم یہ ٹیسٹ کرنے کے قابل ہیں کہ کیا وائرس کی یہ نئی قسم پرانی قسم کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے یا نہیں، تمام نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ جی قسم پرانے ورژن کے مقابلے میں 3 سے 9 گنا زیادہ متعدی ہے'۔

وائرس کے لیبارٹری ٹیسٹوں سے بھی جینیاتی نقشوں کے نتائج کی تصدیق ہوئی۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ وائرس کی نئی قسم اصل قسم کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے پھیلنے کے لیے تیار ہے، جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ فیس ماسک کا استعمال کریں اور سماجی دوری کو اختیار کریں۔

جی 614 کے ساتھ وائرس کی دیگر اقسام بھی موجود ہیں مگر ابھی ان کے اثرات واضح نہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ نتائج کو مزید ٹھوس کیا جاسکے اور معلوم ہوسکے کہ یہ تبدیلیاں اس وبا اور مریضوں کے لیے کیا معنی رکھتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں