'بنگلہ دیش: سیکورٹی اداروں نے طاقت کا بے جا استعمال کیا'
ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیشی سیکورٹی فورسز نے فروری کے بعد سے اب تک، مذہب پسندوں پر جنگی جرائم کے مقدموں کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، کم از کم 150 مظاہرین کو ہلاک کیا ہے۔
نیو یارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو بتایا کہ سیکورٹی فورسز نے سڑکوں پر ریلیوں کے دوران دو ہزار سے زائد مظاہرین کو زخمی کیا، اور بعض صورتوں میں انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔
رپورٹ کے شریک مصنف، مارک ڈرمٹ کے مطابق: ہلاکتوں کی یہ تعداد پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔
'بنگلہ دیش میں سڑکوں پر خون بہنے کی وجہ احتجاج کے دوران ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال ہے'
مارک ڈرپٹ نے دعوی کیا کہ بعض کیسز میں تو مظاہرین کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔
یہ رپورٹ اس دن سامنے آئی جب بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی پارٹی 'جماعت سلامی' پر پابندی لگاتے ہوئے اسے انتخابات کے لئے نااہل قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ مزید احتجاجی مظاہروں کا سبب بن سکتا ہے۔
خیال رہے کہ فروری میں ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جماعت اسلامی کے زیر قیادت اس وقت شروع ہوا جب اس کے رہنماؤں کو جنگی جرائم کے مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں۔
ان مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں آزادی کے بعد بدترین سیاسی تشدد دیکھنے کو ملا۔
ایک مقامی ٹربیونل نے اب تک جماعت اسلامی کے چھ رہنماؤں کو بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم پر سزائیں سنائی ہیں۔ ان میں سے چار کو سزائے موت دی گئی ہے۔
پولیس اور متعلقہ حکام نے رپورٹ میں درج ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کرنے کے بجائے احتجاج کے دوران سیکورٹی افسران پر حملہ کرنے اور سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جھڑپوں کے دوران کم از کم ایک درجن افسران بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی یہ رپورٹ زخمی افراد اور ان کے اہل خانہ سمیت 95 افراد کے انٹرویوز پر مبنی تھی۔ انٹرویو کئے جانے والوں میں ایک بارہ سالہ لڑکا بھی شامل تھا۔
اس لڑکے نے ایک سیکورٹی افسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا 'اس نے میرے سینے کا نشانہ لیا تھا لیکن میرے چہرے پر چھ ربر کے چھرے لگے'۔
'گولی چلانے والا شخص مجھ سے محض دو گز کے فاصلے پر کھڑا تھا۔ میں نے ایسا ظاہر کیا کہ جیسے مردہ ہوں جس پر انہوں نے مجھے دوسی لاشوں کے ساتھ ڈال دیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے آئندہ پانچ ماہ بعد ہونے والے انتخابات اور مستقبل قریب میں مزید جنگی جرائم کے مقدمات کے فیصلوں کے پیش نظرمزید خونی مظاہروں کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر، بریڈ ایڈمز نے کہا ہے کہ جب تک حکومت سیکورٹی فورسز پر قابو میں رکھنے کے لیے سخت اقدامات نہیں اٹھاتی اس وقت تک سڑکوں پر مزید خون بہے گا۔
گو کہ ابتدائی طور پر ان مظاہروں کا مقصد ٹریبونل کے خلاف احتجاج کرنا تھا لیکن مئی سے ان مظاہروں میں ایک نسبتاً زیادہ سخت گیر مذہبی گروپ بھی شریک ہو گیا ہے جو دیگر مطالبات کے ساتھ مردوں اور عورتوں کے مخلوط عوامی اجتماعات پر پابندی اور توہین رسالت کے خلاف سزائے موت کا بھی مطالبہ کر رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے اس نئے گروپ کے خلاف کئے جانے والے کریک ڈاؤن میں کم از کم 50 افراد ہلاک ہوئے- اس گروپ کے لاکھوں مظاہرین نے ڈھاکہ کی سڑکوں پر پانچ اور چھ مئی کو پرزور احتجاج کیا تھا-
حکومت کا کہنا ہے کہ پولیس کو ڈھاکہ کی مرکزی مسجد کے قریب ہونے والے مذکورہ پر تشدد احتجاج کے بعد صرف گیارہ لاشیں ہی مل سکی تھیں۔
حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے خلاف ان مقدمات کا مقصد انصاف کی فراہمی کے بجائے پرانے سیاسی حریفوں سے بدلے چکانا ہے۔
تاہم حکومت کا اصرار ہے کہ یہ مقدمات ان زخموں کے مداوے کے لئے ضروری تھے جو 1971 کی جنگ میں لگے اور جن میں اس کے مطابق تیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب، آزاد ذرائع کے اندازوں کے مطابق جنگ آزادی میں مرنے والوں کی تعداد تین سے پانچ لاکھ کے درمیان تھی۔