عمر شیخ، دیگر 3 کو حراست میں رکھنے کے خلاف صوبائی حکام کو نوٹسز جاری

اپ ڈیٹ 06 اگست 2020
سندھ حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ان چاروں افراد کو رہا کیا گیا تو یہ دہشت گردی کی کارروائی کرسکتے ہیں ۔ فائل فوٹو:اے اایف پی
سندھ حکومت کا ماننا ہے کہ اگر ان چاروں افراد کو رہا کیا گیا تو یہ دہشت گردی کی کارروائی کرسکتے ہیں ۔ فائل فوٹو:اے اایف پی

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس میں ٹرائل کورٹ کے حکم کو معطل کرنے کے بعد بری کیے گئے چار افراد کی نظر بندی میں توسیع سے متعلق دوسرے نوٹیفکیشن کو چیلنج کرنے والی درخواست پر صوبائی حکام اور دیگر کو نوٹسز جاری کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق احمد عمر سعید شیخ، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل نے اپنے وکیل کے ذریعے، انہیں مزید 3 ماہ تک حراست میں رکھنے کے یکم جولائی کو صوبائی اداروں کی جانب سے جاری ہونے والے نئے نوٹیفکیشن کے خلاف، سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

انہوں نے اپنی 90 روزہ نظربندی کے لیے اپریل میں جاری کردہ نوٹیفکیشن کو بھی چیلنج کیا تھا۔

جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل سندھ کے علاوہ محکمہ داخلہ اور دیگر مدعا علیہان کو 20 اگست کے لیے نوٹسز جاری کیے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

درخواست گزاروں کے وکیل نے دعوٰی کیا کہ صوبائی حکام نے ان کی اپیلوں پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے فورا بعد 2 اپریل کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس 1960 کے تحت درخواست گزاروں کو نظربند کرنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یکم جولائی کو صوبائی محکمہ داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے سیکشن 11-ای ای ای (مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے اور نظربند کرنے کے اختیارات) کے تحت ان کی نظربندی میں مزید تین ماہ کی توسیع کرتے ہوئے ایک اور نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

دوسرے نوٹیفکیشن کے مطابق ان چاروں افراد کے نام دہشت گرد تنظیموں سے تعلق ہونے اور دہشت گردی میں ملوث ہونے پر صوبائی پولیس افسر اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل کی 26 جون کو کی گئی سفارشات پر انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل کیے گئے تھے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق صوبائی حکومت کا مؤقف تھا کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر یہ چاروں افراد رہا ہوئے تو وہ نیٹ ورکنگ اور دہشت گردی میں ملوث ہوسکتے ہیں اور اس وجہ سے انہیں اے ٹی اے کے سیکشن 11-ای ای ای کے تحت تین ماہ کے لیے حراست میں رکھا جائے گا۔

وکیل نے استدلال کیا کہ درخواست گزار گزشتہ 20 سالوں سے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور عدالت سے بری ہونے کے باوجود ابھی تک انہیں رہا نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ان کو حراست میں لینا قانون کے مطابق نہیں ہے اور 'یکم جولائی کو جاری ہونے والے حراست میں توسیع سے متعلق نوٹیفکیشن کو معطل کیا جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: مقتول ڈینیئل پرل کے والدین کا بھی ہائیکورٹ کے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ سے رجوع

واضح رہے کہ 2 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے تمام درخواست گزاروں کو قتل اور اغوا برائے تاوان کے الزامات سے بری کردیا تھا اور صرف مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو مقتول صحافی کو اغوا کرنے کا مجرم پایا اور اسے سات سال قید کی سزا سنائی تھی، تاہم سزا پوری ہوچکی ہے کیونکہ مجرم پہلے ہی 18 سال سے جیل میں تھے۔

2002 میں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے وال اسٹریٹ جرنل کے 38 سالہ جنوبی ایشیا کے بیورو چیف کو اغوا اور تاوان کے لیے قتل کرنے کے الزام میں عمر شیخ کو سزائے موت سنائی تھی اور دیگر ملزمان کو مرکزی مجرم کی مدد کرنے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

صوبائی حکومت اور مقتول صحافی کے والدین نے پہلے ہی سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ کے سامنے چیلینج کیا تھا اور 29 جون کو عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو معطل کرنے کے لیے حکومت سندھ کی درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں