سپریم کورٹ کا حکومت پنجاب کو سروس ٹریبونل کے رکن کو تبدیل کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 11 اگست 2020
فیصلے میں کہا گیا کہ غیر قانونی خوشی لینا ایک گھناؤنا جرم ہے جس پر بڑی سزا ملنی چاہیے — فائل فوٹو : اے ایف پی
فیصلے میں کہا گیا کہ غیر قانونی خوشی لینا ایک گھناؤنا جرم ہے جس پر بڑی سزا ملنی چاہیے — فائل فوٹو : اے ایف پی

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پنجاب سروس ٹریبونل کے ایک رکن کو ان کی قانونی سمجھ بوجھ پر فرائض کی انجام دہی سے روک دیا کیوں کہ یہ رکن غیر قانونی خوشی کے الزام کو ایک چھوٹا جرم سمجھتے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے حکومت پنجاب کو ایک ایسا قابل متبادل تلاش کرنے کی ہدایت کی جو اس عہدے کے لیے مناسب معلومات، صلاحیت اور تجربے کا حامل ہو۔

9 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں جسٹس اعجاز الاحسن نے لکھا کہ ’ہماری نظر میں غیر قانونی خوشی لینا ایک بڑا جرم ہے اور اس پر بھاری جرمانہ کرنا چاہیے‘۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔

یہ بھی پڑھیں: سول سرونٹس کی کارکردگی بہتر کیسی ہوگی؟

انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ’غیر قانونی خوشی کو ایک چھوٹا جرم سمجھنا نامناسب ہے اور سروس ٹریبونل کے رکن کو ایک عدالتی حکم نامے سے ذریعے کیا جانے والا کام خود نہیں کرنا چاہیے تھا کہ غیر قانونی خوشی لینا ایک چھوٹا عمل ہے جس کی معمولی سزا ہونی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے لکھا کہ رکن کا یہ طرزِ عمل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شاید وہ اس عہدے کی قابلیت پر پورا نہ اترتے ہوں۔

یہ معاملہ پنجاب سروس ٹریبونل لاہور کے 31 جولائی 2019 کو دیے گئے ایک حکم کے خلاف اپیل سے متعلق ہے جس میں پولیس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر کو جبری ریٹائرمنٹ کی سزا تبدیل کرتے ہوئے ایک سال کے لیے ترقی کو روک دیا گیا تھا۔

پنجاب پولیس کی محکمہ جاتی کارروائی میں محمد نامی شخص کے لیے جبری ریٹائرمنٹ کی سزا سنائی گئی تھی لیکن ٹریبونل نے انہیں عہدے پر بحال کردیا تھا اور ان کی معطلی کا عرصہ چھٹیوں میں تبدیل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'پاکستان میں اچھے سول سرونٹس کی ضرورت نہیں

میانوالی ڈسٹرک پولیس افسر کے تحت محکمہ جاتی کارروائی کے دوران حامد کو ایک ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے وسیم حیات نامی شخص سے 20 ہزار روپے وصول کرنے پر بڑی سزا سنائی تھی۔

تاہم سروس ٹریبونل نے اس پر نرم رویہ اختیار کیا اور محکمہ جاتی انکوائری کو ناقص قرار دیتے ہوئے سروس سے برطرفی کی سزا کو جبری ریٹائرمنٹ میں تبدیل کردیا تھا۔

سروس ٹریبونل کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اپیل کنندہ (حامد) کو دی گئی سزا ان کے جرم کے مطابق نہیں ہے اور وہ کچھ نرم سلوک کے مستحق ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کن قانونی بنیادوں پر اور اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے کس طرح اور کیوں ٹریبونل اس نتیجے پر پہنچا کہ حامد نرمی کے مستحق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریٹائرمنٹ کے قواعد سرکاری افسران کیلئے تشویش کا باعث

فیصلے میں کہا گیا کہ غیر قانونی خوشی لینا ایک گھناؤنا جرم ہے جس پر بڑی سزا ملنی چاہیے جبکہ پنجاب سروس ٹریبونل کا ایک رکن اسے معمولی فعل سمجھ رہا ہے اور معمولی سزا کا اطلاق ظاہر کرتا ہے کہ رکن غیر قانونی خوشی لینے کے جرم کا احساس نہیں رکھتا جو قانون کے تحت ایک مس کنڈکٹ ہے۔

سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ سروس ٹرویبونل کے رکن کے اپنائے گے طریقہ کار نے سروس کے معاملات پر فیصلہ کرنے اور خلاف ضابطہ افعال میں ملوث سول سرونٹس کی سزا کے حوالے سے ان کی پیشہ ورانہ قابلیت اور صلاحیت پر سوال اٹھادیے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں