سندھ میں کسی غیر آئینی اقدام کو عدالتی تحفظ دیا گیا تو حملہ تصور ہوگا، بلاول

اپ ڈیٹ 13 اگست 2020
بلاول بھٹو نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے این ایف سی کا حصہ نہ ملنے کی شکایت کی —فوٹو:ڈان نیوز
بلاول بھٹو نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے این ایف سی کا حصہ نہ ملنے کی شکایت کی —فوٹو:ڈان نیوز

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اگر وفاق نے سندھ میں کوئی غیر آئینی کام کیا اور اس کو عدالتی تحفظ دیا گیا تو وہ حملہ تصور ہوگا اور ہم اس کو قبول نہیں کریں گے۔

کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے ایک سوال پر کہا کہ 'اگر وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی والے سندھ کے دارالحکومت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں اپنی کالونی بنانا چاہتے ہیں تو یہ غیر آئینی اور غیرقانونی ہوگا'۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ 'خدانخواستہ غیرآئینی قبضے کو کسی نہ کسی طریقے سے عدالتی تحفظ دیا جائے گا تو پھر جب شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا، جو بہت ہی بڑا حملہ تھا اور یہ ایک بار پھر اس دھرتی پر حملہ تصور ہوگا، جو ہمارے لیے بالکل قبول نہیں ہوگا'۔

مزید پڑھیں:کراچی کے عوام کی مشکلات کا احساس ہے، شہر کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، عمران خان

بلاول بھٹو نے کہا کہ 'میں اُمید کرتا ہوں کہ ایسا کوئی غیر آئینی اور غیر جمہوری حملہ، قبضہ، کالونی بنانے کی کوشش، اس وقت جب پاکستان اتنے مسائل کا سامنا کررہا ہے، ہماری معیشت مسلسل مشکلات سے دوچار ہے، ان دو برسوں میں عوام کی حالت خراب سے خراب تر ہوئی ہے، مہنگائی کا مسئلہ ہر طرف ہے اور معاشی مشکلات ہیں جو عوام کو اٹھانا پڑے گا تو ایسے میں ان سب مسائل کے حل کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر اس طرح کے غیر آئینی اقدامات کیے جائیں گے تو زیادہ مشکلات پیدا کی جائیں گی، خاص طور پر کراچی جو نہ صرف صوبے بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کا اہم پہلو ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر ہمارے حق کا تحفظ نہیں ہوتا ہے تو پھر نقصان پورے پاکستان کا ہوگا'۔

'قومی بحران میں عوام کے وسائل چھیننے کی بات ہورہی تھی'

بلاول بھٹو نے کہا کہ سارے مسائل کی جڑ این ایف سی کا حصہ مسلسل نہیں ملنے کا نتیجہ ہے، آج تک کسی صوبے کو اس کا حق نہیں دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جس این ایف سی پر ہم رونا رو رہے ہیں اس پر بھی ہمارا حق نہیں دیا جارہا ہے، پچھلے سال سندھ کے حصے سے 116 ارب روپے کی کمی پر بات ہوئی تھی اور اس سال 200 ارب سے زیادہ حصہ کم کردیا گیا ہے اوریہ ہر صوبے کے ساتھ مسلسل کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم 18 ویں ترمیم سے پہلے کے این ایف سی ایوارڈ پر چل رہے ہیں تو پھر 18ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو زیادہ کام اور ذمہ داریاں دی گئی ہیں، اس لیے این ایف سی کے حصے میں اضافہ کیا جائے تاکہ صوبے کے عوام کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے کام کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں:'کراچی والے کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خمیازہ بھگت رہے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے'

چیئرمین پی پی پی کا کہنا تھا کہ این ایف سی میں زیادہ حصہ ملے گا تو عوام کے صحت، تعلیم، مقامی حکومتوں اور دوسرے نظام میں بہتری کے لیے کام ہوگا لیکن وفاق وہ حق دینے کوتیار نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی ہم نیشنل ڈیزاسٹر، عالمی وبا سے گزر جاتے ہیں تو باقی دنیا میں چاہے ان کا نظام صدارتی، پارلیمانی یا کوئی اور نظام ہو وہ متحد ہوجاتے ہیں۔

بلاول نے کہا کہ دنیا میں چاہے جس طرح کا بھی نظام حکومت ہو وہ کورونا اور مون سون جیسے مسائل پر پوری قوم ایک ہوتی ہے اور جہاں مسائل ہوں وہاں ایک دوسرے کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں کورونا جیسی وبائی صورت حال میں بھی عوام کے حقوق اور وسائل چھیننے کی بات ہورہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب میرے صوبے میں مون سون کی تاریخی بارش، جو 10 سال میں نہیں ہوئی تھی، سے عوام کے لیے مسائل کھڑے ہوئے اور کراچی میں کوئی مشکل ہوتی ہے تو میرے لیے گھوٹکی، ٹھٹہ اور دیگرعلاقوں کی طرح تشویش کی بات ہے۔

بلاول نے کہا کہ ہم سب ایک بحران سے گزرے اور بارش کا ایک اور اسپیل آیا جس کے بعد وفاق کو خیال آیا کہ شاید سندھ کے دارالحکومت میں کوئی بحران ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق نے اس لیے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کو بھیجا، ہم این ڈی ایم اے کے بہت شکر گزار ہیں کیونکہ دیر آید درست آید لیکن آئے تو صحیح، تاکہ مل کر مسائل کو حل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جب عوام مشکل میں ہوتو وفاق کی نیت صاف ہونی چاہیے لیکن یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس صوبے کے عوام کے لیے وفاق کی کوششوں میں بدنیتی نظر آتی ہے۔

مزید پڑھیں:کمشنر کراچی کنٹونمنٹ کے علاقوں سے بھی سائن بورڈ ہٹانے کیلئے بااختیار ہوں گے، سپریم کورٹ

بلاول کا کہنا تھا کہ قومی ڈیزاسٹر اور بحران میں اس طرح سیاست نہیں کھیلی جاتی، جب عوام ایک دکھ سے گزر رہے ہیں تو ہم ان سے ان کا حق کیسے چھین سکتے ہیں، اس مشکل میں ہم ان سے کیسے وسائل لے سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بدنیتی آپ اور جو لوگ عملی طور پر کام کررہے ہیں اس کو متاثر کرے اور قومی اتحاد کو نقصان پہنچائے گی، ہم جب بھی قومی اہمیت کی بات آئی ہے تو پی پی پی نے سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد کے لیے کام کیا ہے۔

'اسمبلی سے چند بل زبردستی منظور کروائے گئے'

بلاول بھٹو نے کہا کہ قومی اسمبلی میں پی پی پی اور اپوزیشن نے جمہوری عمل اور نظام میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق جو قانون درست تھے ان میں ساتھ دیا اور جو نکات غیرجمہوری تھے اور ایف اے ٹی ایف کا نام لے اپنے آپ کو آمرانہ طاقت دلانا چاہتے تھے اور عوام کے حقوق کو چھیننا چاہتے تھے اس میں لڑ کر ترامیم لا کر، جو بل کالاقانون بن سکتے تھے ان کو بہتر کرکے ایوان سے منظور کرلیا۔

انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی، کمیٹیوں اور سینیٹ میں جمہوریت ہونی چاہیے، اسمبلی سے 5 سے 6 بل منظور ہوئے ہیں جو اراکین کو بات کرنے کا مناسب موقع دیے بغیر زبردستی منظور کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کوئی بل متنازع ہوسکتا ہے تو اس پر سینیٹ میں بھی بات کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ اس پر ہم مل کر پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے بلیک لسٹ سے بچاسکیں۔

حکومت کے پیش کردہ بلوں کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین بل عاملہ، سی آر پی سی ترمیمی اور معاشی دہشت گردی کے بل ہیں، جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کی ضروریات سے زیادہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نہ صرف ایف اے ٹی ایف کی ضروریات سے زیادہ ہیں بلکہ اپنے عوام کے حقوق کو کمپرومائز کرتے ہیں، یہ بہت خطرناک قانون سازی ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس قانون سازی کو اس صورت میں کسی قیمت نہیں مان سکتی اور اگر زبردستی معاشی دہشت گردی بل کو منظور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ہم اس کی سخت مخالفت کریں گے۔

'بی آر ٹی مکمل ہوا ہے تو تفتیش کی اجازت دی جائے'

انہوں نے کہا کہ ہمارے وزیراعظم پشاور میں ہیں جہاں نامکمل بی آر ٹی منصوبے کا افتتاح کررہے ہیں، یہ وہ منصوبہ ہے جس کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت کی سی ایم آئی ٹی کی کمیٹی نے خود کہا کہ اس میں اربوں روپے کی کک بیکس ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم عمران خان نے بی آر ٹی پشاور کا افتتاح کردیا

بی آر ٹی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو اس منصوبے کی تفتیش کے لیے کہا لیکن سپریم کورٹ سے اسٹے آرڈر لیا گیا پھر پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے سے تحقیقات کا کہا پھر سپریم کورٹ نے اسٹے دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر کے پی میں پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ منصوبہ مکمل ہے تو میرے کارکن کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ 6 کلومیٹر ہوا ہے اور 26 کلومیٹر پر کام رہتا ہے۔

بلاول بھٹو نے مطالبہ کیا کہ اگر منصوبہ مکمل ہے تو سپریم کورٹ کا اسٹے آرڈر ختم ہونا چاہیے اور پشاور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ایف آئی اے کو تفتیش کا موقع دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نامکمل میٹرو منصوبے کے نام پر جس طرح خیبرپختونخوا کے عوام کے پیسے لوٹ لیے گئے اور عمران کا کچن چلانے اور پی ٹی آئی کی انتخابی مہم سے متعلق سارے حقائق پاکستان کے عوام کے سامنے آنے چاہیئیں۔

بی آر ٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس میں جو بھی ملوث ہے، چاہے وفاقی وزیر ہے یا ماضی میں صوبے میں کام کیا ہو ان سب کو گرفتار کرنا چاہیے۔

مزید پڑھیں:'کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں، لگتا ہے سندھ اور مقامی حکومت کی شہریوں سے دشمنی ہے'

ان کا کہنا تھا کہ اگر نیب غیر جانب دارانہ کام کررہی ہے تو جو کردار انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ ادا کیا ہے وہی کردار اب پی ٹی آئی سے متعلق بھی بنتا ہے۔

چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ اب دیکھتے ہیں کہ سب کے لیے نیب، سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ ایک ہے، میں بھی دیکھوں گا اور آپ سب بھی دیکھیں گے۔

'بل گیٹس کی کراچی پر بات کا کریڈٹ وزیراعظم لے رہے ہیں'

بلاول بھٹو نے کورونا وائرس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میں عوام کا شکر گزار ہوں کہ ان کی قربانیوں کی وجہ آسانیاں ہوئیں اور ہم فوری طور پر لاک ڈاؤن لگانے والے دنیا کے چند ممالک میں تھے۔

انہوں نے کہا کہ تمام صوبے، جنہوں نے اپنے وزیراعظم کی مخالفت کے باوجود جو اقدامات کیے تھے اور اپنے عوام کو بچایا تھا وہ بھی داد کے مستحق ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بل گیٹس کراچی کا نام لے کر بات کرتے ہیں تو وزیراعظم اس کا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن اب یہ غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے کہ کورونا اب ختم ہوگیا ہے، اس سے ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں