نئے کورونا وائرس کی وبا کو اب 8 ماہ سے زیادہ ہوچکے ہیں مگر اس بیماری کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوسکا۔

کئی ماہ سے طبی ماہرین کی جانب سے بحث کی جارہی ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے ایک بار شکار ہونے والے افراد دوبارہ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں یا نہیں۔

اب تک اس حوالے سے ملی جلی رائے سامنے آئی ہے یعنی کچھ حلقے کہتے ہیں کہ ایک بار بیمار ہونے کے بعد لوگوں کے اندر اس کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ دوبارہ بیماری کا امکان موجود ہے۔

اب طبی ماہرین نے دنیا میں کووڈ 19 سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے کیس کی تصدیق کی ہے۔

ہانگ کانگ کے محققین نے کورونا وائرس سے دوسری بار بیمار ہونے کے پہلے مصدقہ کیس کی تصدیق کی۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے محققین نے 24 اگست کو اپنے ایک بیان میں بتایا 'بظاہر ایک نوجوان اور صحت مند مریض ساڑھے 4 ماہ بعد دوسری بار کووڈ 19 کا شکار ہوا ہے'۔

اس سے قبل مریض میں مارچ کے آخر میں نئے کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی اور ساڑھے 4 ماہ بعد اب پھر کووڈ 19 کا شکار ہوا ہے اور ایسا یورپ میں سفر کے دوران ہوا۔

اس سے قبل بھی لوگوں میں کووڈ 19 کے دوبارہ شکار ہونے کی رپورٹس سامنے آئی ہیں مگر ان کو اکثر ٹیسٹنگ عمل میں خامیوں کا نتیجہ قرار دیا گیا۔

مگر اس نئے کیس میں ہانگ کانگ یونیورسٹی کے محققین نے مریض میں دونوں بار بیماری کے بعد وائرس کے جینوم سیکونس کے ذریعے دریافت کیا کہ ان میں مطابقت نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری بار بیماری کا پہلی بار سے کوئی تعلق نہیں بلکہ دونوں وائرسز کی جینیاتی ساخت مختلف ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ کووڈ 19 کو شکست دے کر دوبارہ اس کا ششکار ہونے کا پہلا مصدقہ کیس ہے۔

33 سالہ مریض جب مارچ میں کووڈ 19 کا شکار ہوا تھا تو میں اس میں بیماری کی شدت معتدل تھی جبکہ اب دوسری بار کسی قسم کی علامات نظر نہیں آئیں۔

درحقیقت دوبارہ وائرس کی تصدیق اس وقت ہوئی جب وہ اسپین کے دورے سے واپس آیا تو معمول کا ٹیسٹ کیا گیا اور جینیاتی سیکونس بھی وائرس کی اس قسم سے ملتا جلتا ہے جو یورپ میں جولائی اور اگست میں سرگرم ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مریض میں دوسری بار بیماری وائرس کی نئی قسم کا نتیجہ ہے جو حال ہی میں اس کے جسم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کورونا کے لاکھوں کیسز ہیں اور یہ غیرمتوقع نہیں کہ کچھ افراد چند مہینوں بعد ہی اس وائرس سے دوبارہ متاثر ہوجائیں۔

عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز کے شکا افراد میں ایک سال کے اندر دوبارہ بیماری کا امکان ہوتا ہے مگر ماہرین کو توقع ہے کہ نیا کورونا وائرس سارس یا مرس جیسے وائرسز سے ملتا جلتا ہوگا، جن کے شکار افراد میں کئی سال تک بیماری کے خلاف مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔

مگر ہانگ کانگ کے کیس کے بععد مدافعتی تحفظ کے پائیدار ہونے کے حوالے سے سوالات سامنے آئے ہیں۔

دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ابھی مزید جانچ پڑتال کرنا ہوگی اور کووڈ 19 کے صحتیاب مریضوں پر جاری تحقیقی رپورٹس سے زیادہ ٹھوس نیتجہ سامنے آئے گا۔

عالمی ادارہ صحت کی عہدیدار ماریہ وان کرکوف سے پیر کو معمول کی بریفننگ کے دوران ہانگ کانگ کے کیس کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اب تک 2 کروڑ سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں، اور ہمیں اس طرح کے واقعات کو زیادہ بڑی آبادی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد کو اس بیماری کے خلاف کتنے عرصے تک تحفظ مل سکتا ہے۔

تحقیقی رپورٹس میں اب تک عندیہ تو ملتا ہے کہ بیماری سے ریکور ہونے والے بیشتر افراد میں اینٹی باڈیز اور ٹی سیلز بن جاتے ہیں جو وائرس سے دوبارہ متاثر ہونے سے بچانے میں کردار ادا کرتے ہیں، جس سے وہ کچھ عرصے تک کووڈ 19 سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

ماریہ وان کا کہنا تھا کہ ہم نے ابھی تک اس بیماری کے بارے میں جو جانا ہے، اس کے مطابق لوگوں میں کسی حد تک اس کے خلاف مدافعتی ردعمل بنتا ہے، مگر ابھی یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ یہ مدافعتی ردعمل کس حد تک مضبوط ہوتا ہے اور کب تک برقرار رہ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے کی جانب سے ہانگ کانگ کے کیس کو دیکھا جارہا ہے۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا تھا کہ ہوسکتا ہے کہ نظیر نہ ہو مگر اس سے کچھ اہم اثرات کی جانب سے اشارہ ہوتا ہے، یعنی جو لوگ کووڈ 19 کو شکست دے چکے ہیں، انہیں بھی ویکسین کی ضرورت ہوگی، جبکہ انہیں بھی احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک کا استعمال اور سماجی دوری پر عمل کرنا چاہیے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں