کورونا وائرس کے ایک معمے کی ممکنہ وضاحت سامنے آگئی

24 اگست 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے بارے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں اور معلوم ہورہا ہے کہ یہ جسم میں کس طرح تباہی مچاتا ہے۔

پہلے یہ بات سامنے آئی کہ اس بیماری کے نتیجے میں دل کے مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، گردے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ دماغی صحت کی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔

اس کے علاوہ خون گاڑھا ہونے سے لاتعداد ننھے لوتھڑے یا کلاٹس بننے کا مسئلہ بھی بہت زیادہ بیمار افراد میں دریافت کیا گیا ہے جو ہلاکتوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔

کچھ ماہ پہلے دنیا بھر میں طبی ماہرین کے لیے اس وائرس کا ایک اور پہلو معمہ بن گیا تھا جسے سائیلنٹ یا ہیپی ہائپوکسیا کا نام دیا گیا۔

اگر آپ کو علم نہ ہو تو جان لیں کہ ہائپوکسیا میں جسمانی بافتوں یا خون میں آکسیجن کی کمی ہوجاتی ہے مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں جو اس کا اثر دیکھنے میں آرہا ہے ایسا پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا۔

کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں خون میں آکسیجن کی سطح انتہائی حد تک گر جاتی ہے مگر پھر بھی وہ ڈاکٹروں سے بات کررہے ہوتے ہیں، اپنے فونز پر اسکرولنگ کرتے ہیں اور خود کو ٹھیک ہی محسوس کرتے ہیں۔

حالانکہ عام حالات میں جسم میں آکسیجن کی اتنی کمی چلنے پھرنے یا بات کرنے کے قابل نہیں چھوڑتی بلکہ اتنی کمی میں بے ہوشی طاری ہونے یا موت کا خطرہ بھی ہوتا ہے مگر کووڈ 19 کے مریض اتنی کمی کے باوجود ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔

عام طور پر خون میں آکسیجن کی سطح 95 فیصد ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کے امراض جیسے نمونیا میں اگر اس سطح میں کمی آتی ہے تو مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں یعنی پھیپھڑوں میں پانی بھرنے لگتا ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسے ہیپی یا سائیلنٹ ہائپوکسیا کا نام دیا گیا کیونکہ کووڈ 19 کے مریضوں میں 95 فیصد کی بجائے 80، 70 بلکہ 50 فیصد کمی بھی دیکھی گئی ہے۔

اب سائنسدانوں نے اس کی ایک ممکنہ وجہ تلاش کرلی ہے اور وہ ہے پھیپھڑوں میں خون کی شریانوں کا نمایاں حد تک پھیل جانا۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

ایشکن اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں کووڈ 19 کے شکار افراد کے پھیپھڑوں میں خون کی شریانیں بہت زیادہ پھیل جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں آکسیجن کی سطح میں بہت زیادہ کمی آتی ہے اور اسی سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ اس طرح کے دیگر امراض جیسے اے آر ڈی ایس سے مختلف کیوں ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف ریسیپٹری اینڈ کریٹیکل کیئر میڈیسن میں شائع ہوئے۔

عام طور پر اے آر ڈی ایس میں پھیپھڑوں میں ورم خون کی شریانوں سے سیال کے لیک ہونے کا باعث بنتا ہے جس سے پھیپھڑوں میں سیال جمع ہونے لگتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ سخت اور آکسیجن کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

کووڈ 19 کے متعدد ایسے مریض جن میں نمونیا کی تشخیص ہوتی ہے، ان میں پھیپھڑوں کی ایسی اکڑن دیکھنے میں نہیں آتی۔

جس کی وجہ سے طبی ماہرین نے بتایا تھا کہ کووڈ 19 میں آکسیجن کی بہت زیادہ کمی اے آر ڈی ایس کی روایتی علامات سے مختلف ہوتی ہے۔

اس نئی دریافت کو انتہائی اہم قرار دیا جارہا ہے جس میں کووڈ 19 کے وینٹی لیٹر پر موجود مریضوں میں دوران خون کا تجزیہ مختلف طریقوں سے کیا گیا تھا۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ حیران کن تھا کہ ایک دماغ کے لیے استعمال ہونے ہونے والی ایک ڈایئگنوسٹک مشین کی مد سے پھیپھڑوں کے ایک مرض کی گہراجئی کو جانچا گیا۔

اس تحقیق میں کووڈ 19 کے نتیجے میں بہت زیادہ بیمار ہوکر وینٹی لیٹر پر موجود 18 مریضوں کو دیکھا گیا تھا۔

18 میں سے 15 مریضوں میں ننھے بلبلوں کو دیکھا گیا، جس سے پھیپھڑوں کی شریانوں میں غیرمعمولی حد تک کشادگی کا عندیہ ملا۔

اس کے مقابلے میں اے آر ڈی ایس کے صرف 26 فیصد مریضوں میں اس طرح کے ننھے بلبلوں کو دیکھا گیا تھا۔

کووڈ 19 کے مریضوں میں ان بلبلوں کی تعداد سے ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ ان میں آکسیجن کی شدید کمی کے باوجود اثرات نظر کیوں نہیں آتے۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ مسلسل واضح ہوتا جارہا ہے کہ یہ وائرس مختلف طریقوں سے پھیپھڑوں کے افعال میں تباہی مچاتا ہے اور نتائج سے کووڈ 19 کے کچھ مریضوں میں آکسیجن کی غیرمعمولی کمی کے عجیب معمے کی وضاحت میں بھی مدد ملتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر مزید بٖڑی تحقیقی رپورٹس میں اس کی تصدیق ہوگئی تو ان نننھے بلبلوں کی تعداد سے کووڈ 19 کی شدت کی پیشگوئی کرنے میں مدد مل سکے گی۔

اس تحقیق کو اب 80 مریضوں تک پھیلا دیا گیا ہے جن میں سے کچھ ایسے بھی ہیں، جن میں کووڈ 19 کی شدت بہت زیادہ نہیں، تاکہ ان ننھے بلبلوں کے اثرات کی شدت کا تعین کیا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں