نیب دفتر کے باہر ہنگامہ آرائی: مریم نواز کے خلاف مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2020
مسلم لیگ (ن) کے رہنما عدالت میں پیش ہوئے تھے — فائل فوٹو: فیس بک پیج
مسلم لیگ (ن) کے رہنما عدالت میں پیش ہوئے تھے — فائل فوٹو: فیس بک پیج

لاہور پولیس نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی قومی احتساب بیورو (نیب) میں پیش کے موقع ہنگامہ آرائی سے متعلق مقدمے میں دہشت گردی کے دفعات شامل کردیں۔

خیال رہے کہ لاہور کی سیشن عدالت میں کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی تھی اور اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما عدالت میں پیش ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر کارکنان اور پولیس میں تصادم

تھانہ چوہنگ کی جانب سے پولیس افسر نے عدالت میں پیش ہو کر ایک رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے مقدمے میں انسداد دہشت گردی دفعات کو شامل کرلیا گیا ہے اور مریم نواز، کیپٹن (ر) صفدر سمیت مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں اور کارکنان پر مقدمے میں قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے دہشت گردی کی دفعات عائد کر دی گئی ہیں۔

اس موقع پر سرکاری وکیل نے عدالت میں دلائل دیے کہ دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے کے بعد ضمانت کے کیس پر سماعت کا اختیار صرف انسداد دہشت گری عدالت کا ہے۔

دوسری جانب کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل نے سرکاری وکیل کے دلائل کی مخالفت کی اور کہا کہ سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل کرنا افسوسناک ہے لہذا عدالت دہشت گردی کی دفعات ختم کر کے ضمانت منظور کرنے کا حکم دے۔

عدالت نے دونوں جانب کے دلائل سننے کے بعد کیپٹن (ر) صفدر سمیت دیگر 16 لیگی کارکنوں کی ضمانتیں خارج کر دیں۔

جس کے بعد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے وکیل فرہاد علی شاہ نے اپنے موکل کی ضمانت کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کیا۔

ان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کروائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ پولیس نے جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کیا ہے اور سیاسی مقدمہ بنا کر ان کے مؤکل کو نامزد کیا گیا ہے۔

بعد ازاں مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر توڑ پھوٹ اور ہنگامہ آرائی کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر کی عبوری ضمانت منظور کرلی اور پولیس کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما کی گرفتاری سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیب دفتر کے باہر ہنگامہ آرائی، مسلم لیگ (ن) کے کارکنان 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل منتقل

عدالت نے کیپٹن (ر) صفدر کی 11 ستمبر تک عبوری ضمانت منظور کی اور تھانہ چوہنگ پولیس سے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے مقدمے کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

یاد رہے کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف تھانہ چوہنگ میں دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس میں ان پر مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر توڑ پھوڑ اور کار سرکار میں مداخلت کا بھی الزام ہے۔

واضح رہے کہ مقدمے میں کیپٹن (ر) صفدر کے علاوہ مریم نواز، رانا ثنا اللہ سمیت دیگر لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے۔

نیب دفر کے باہر ہنگامہ آرائی

خیال رہے کہ نیب نے اراضی سے متعلق کیس میں نیب نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کو 11 اگست کو طلب کر رکھا تھا، ان کی پیشی کے موقع پر کارکنان کی بڑی تعداد ان کے ہمراہ نیب دفتر کی جانب روانہ ہوئی تھی۔

دوسری جانب نیب دفتر کے اطراف میں پولیس نے رکاوٹیں لگا کر سڑکیں بند کررکھی تھی جس پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان مشتعل ہوگئے اور پھر کارکنان اور پولیس دونوں کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا، جس پر پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ سے صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی تھی جس کے باعث نیب نے ان کی پیشی منسوخ کردی تھی۔

بعدازاں ایک باضابطہ اعلامیے میں نیب نے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کروانے کا اعلان کیا۔

اس واقعے کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا تھا کہ آج جس ریاستی، حکومتی خوف، جبر اور دہشت گردی کا میں نے مشاہدہ کیا ہے وہ میرے لیے یا مسلم لیگ (ن) کے لیے نہیں بلکہ اس جعلی اور سلیکٹڈ حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

11 اگست کی رات کو پولیس نے نیب کی شکایت پر مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے 300 کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جس میں 187 افراد کو قانون نافذ کرنے والوں اور نیب عہدیداروں پر حملہ کرنے اور نیب کی عمارت کو نقصان پہنچانے پر مقدمے میں نامزد کیا گیا۔

مزید پڑھیں: نیب میں طلب کرنے کا مقصد مجھے نقصان پہنچانا تھا، مریم نواز

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ملزمان میں نیب کے روز مرہ کے دفتری امور کو تباہ کیا اور کارِ سرکار میں مداخلت کی، یہ شرپسندانہ حرکت مریم صفدر ان کے شوہر صفدر اعوان کی جانب سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ جاتی عمرہ سے گاڑیوں میں پتھر بھر کے لائے گئے، مریم نواز کے اشتعال دلانے پر کارکنان کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جمع ہوئے جسے پولیس نے منتشر ہونے کا حکم دیا لیکن کارکنان نے اپنے رہنماؤں کی قیادت میں وردی میں ملبوس پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس سے 13 اہلکار زخمی ہوئے۔

واقعے کے دوسرے ہی روز نیب کے دفتر میں پیشی کے موقع پر ہنگامہ آرائی کے سلسلے میں گرفتار کیے گیے مسلم لیگ (ن) 58 کارکنان کو 14 روزہ عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا جبکہ 13 اگست کو ضلع کچہری کی عدالت نے مقدمے میں گرفتار مسلم لیگ (ن) کے تمام گرفتار کارکنان کی ضمانتیں منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں