چینی اسکینڈل: ایف آئی اے کے نوٹسز میں جرم نہیں بتایا گیا، جہانگیر ترین کا جواب

اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2020
مجھ سے یا میری کمپنی  سے کوئی جرم نہیں ہوا ہے اور نہ ہی جے آئی ٹی یا سی آئی ٹی کسی جرم کا کوئی ثبوت سامنے لاسکی ہے، جہانگیر ترین۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز
مجھ سے یا میری کمپنی سے کوئی جرم نہیں ہوا ہے اور نہ ہی جے آئی ٹی یا سی آئی ٹی کسی جرم کا کوئی ثبوت سامنے لاسکی ہے، جہانگیر ترین۔ فائل فوٹو:ڈان نیوز

لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ چینی بحران کی تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے کال اپ نوٹس میں اٹھائے گئے سوالات اور خدشات میں سے کوئی بھی ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے شیڈول کے تحت (ان کے اور ان کی کمپنی کے خلاف) کسی بھی جرم کی نشاندہی نہیں کرتے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جہانگیر ترین جو اس وقت برطانیہ میں مقیم ہیں، نے جمعرات کے روز چینی اسکینڈل کی تحقیقات سے متعلق سوالات پر ایف آئی اے کو تفصیلی جواب جمع کرایا۔

ایف آئی اے نے 19 ستمبر کو پیش نہ ہونے پر انہیں اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے جمعرات کے روز دوبارہ طلب کیا تھا۔

اپنے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ 'مجھ سے یا میری کمپنی (جے ڈی ڈبلیو) سے کوئی جرم نہیں ہوا ہے اور نہ ہی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) یا کمبائنڈ انویسٹی گیشن ٹیم (سی آئی ٹی) اس طرح کے کسی جرم کا کوئی ثبوت سامنے لاسکی ہے'۔

مزید پڑھیں: شوگر سبسڈی اسکینڈل: جے آئی ٹی نے جہانگیر ترین، علی ترین کو طلب کرلیا

ان کا کہنا تھا کہ 'در حقیقت کال آؤٹ نوٹس میں اٹھائے گئے سوالات اور خدشات میں سے کوئی بھی ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے شیڈول کے تحت کوئی جرم ثابت نہیں کرتے'۔

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے کال اپ نوٹس میں بتائے گئے جرائم کا وفاقی حکومت سے کوئی گٹھ جوڑ نہیں ہے۔

جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ 'کال اپ نوٹس میں مذکور سرمایہ کاری کی ٹرانزیکشنز، حصول اور ادائیگی کے لین دین کے لیے قانونی راستے استعمال کیے گئے تھے، نہ تو مہنگی یا غیر معمولی قیمت پر کوئی حصول عمل میں لایا گیا تھا اور نہ ہی کوئی بے بنیاد سرمایہ کاری یا ادائیگی کا لین دین تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'در حقیقت تمام معاملات موجودہ حالات کے تحت معاشی طور پر درست تھے، مزید یہ کہ جے ڈی ڈبلیو کے تمام اہلکاروں نے جے آئی ٹی اور سی آئی ٹی کے ساتھ ہر مرحلے میں تعاون کیا ہے اور ہر ٹرانزیکشن کی شفاف، جائز اور اچھی نوعیت کو قائم کرنے کے لیے دستاویزی ثبوت فراہم کیے ہیں'۔

جہانگیر ترین نے کہا کہ ایف آئی اے کے نوٹسز میں مذکورہ کسی بھی لین دین سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی بھی ڈائریکٹر، شیئر ہولڈر یا دوسرے اسٹیک ہولڈر کو تکلیف نہیں ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا 'لہذا میں ایف آئی اے سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کے خلاف تحقیقات ختم کردے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جے ڈی ڈبلیو قومی خزانے میں سالانہ 15 ارب روپے ٹیکس جمع کراتی ہے جو چینی کی صنعت کے ساتھ ساتھ دیگر صنعتوں میں بھی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر اسکینڈل: جہانگیر ترین، شہباز شریف اور آصف زرداری کو نوٹسز بھیجنے کا فیصلہ

ایف آئی اے نے گزشتہ چار سالوں کے اور خاص طور پر ایک سال کے دوران چینی کی قیمتوں میں اضافے اور شوگر ملز کو حاصل کی جانے والی سبسڈی پر تحقیقات کی تھیں۔

اپریل میں وزیر اعظم عمران خان کو جمع کرائی گئی اپنی رپورٹ میں ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا نے انکشاف کیا تھا کہ بحران کے دوران دو اہم گروہوں نے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا ہے، ان میں سے ایک جے ڈی ڈبلیو ہے جس کی 6 شوگر ملز تھیں۔

رپورٹ کے مطابق جے ڈی ڈبلیو نے 18-2015 کے دوران برآمدی سبسڈی میں 12.28 فیصد حاصل کیا جس کی کل مالیت 3 ارب 5 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے۔

ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ 'ایف آئی اے لاہور جہانگیر ترین کے جواب کی جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ کرے گی کہ انہیں ایک اور کال آؤٹ نوٹس جاری کیا جائے یا نہیں'۔

اس سے قبل انہوں نے ایف آئی اے کو بتایا تھا کہ وہ برطانیہ میں زیر علاج ہیں لہذا وہ اس پر اپنا جواب جمع کرا رہے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ صحت یاب ہونے کے بعد واپسی پر وہ ضرورت پڑنے پر ذاتی طور پر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں