بھارت کے 44 بینک اربوں روپے کی ہزاروں مشکوک ٹرانزیکشن میں ملوث نکلے

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2020
ایسی ہزاروں ٹرانزیکشنز ہیں جس میں رقم بھیجنے یا وصول کرنے والے بھارتیوں کے پتے بیرونِ ملک کے تھے—تصویر: رائٹرز
ایسی ہزاروں ٹرانزیکشنز ہیں جس میں رقم بھیجنے یا وصول کرنے والے بھارتیوں کے پتے بیرونِ ملک کے تھے—تصویر: رائٹرز

کراچی: امریکی بینکوں نے فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (فن سین) کو بھارتی بینکس کی فراہم کردہ مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹ (ایس اے آرز) میں انڈین اداروں اور افراد کی جانب سے کی گئی رقوم کی منتقلی سے تعلق میں 44 بھارتی بینکوں کی نشاندہی کی ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے حوالے سے بتایا گیا کہ بھارتی پتا رکھنے والی پارٹیز کے ریکارڈ کے ایک سیٹ کے مطابق مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹ میں بھارتی بینکس 2011 سے 2017 کے دوران ایک ارب روپے سے زائد کی 2 ہزار ٹرانزیکشن سے منسلک تھے۔

اہم بات یہ ہے کہ بھارتی اداروں، کاروباری افراد سے تعلق رکھنے والی ایسی ہزاروں ٹرانزیکشنز ہیں جس میں رقم بھیجنے یا وصول کرنے والے بھارتیوں کے پتے بیرونِ ملک کے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بینکس کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ

تفتیش کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سسپیشئس ایکٹیوٹی رپورٹس (ایس اے آرز) میں شامل کیے گئے بھارتی بینکوں میں سرکاری بینک مثلاً پنجاب نیشنل بینک (290 ٹرانزیکشنز)، اسٹیٹ بینک آف انڈیا (102 ٹرانزیکشنز)، بینک آف برودا (93 ٹرانزیکشنز)، یونین بینک آف انڈیا (99 ٹرانزیکشنز) اور کانارا بینک (190 ٹرانزیکشنز) شامل ہیں۔

اسی طرح ایس اے آرز میں درج نجی بھارتی بینکوں میں ایچ ڈی ایف سی (253 ٹرانزیکشنز)، آئی سی آئی بینک (57 ٹرانزیکشنز)، کوٹک مہیندرا بینک (268 ٹرانزیکشنز)، ایکسز بینک (41 ٹرانزیکشنز) اور انڈس انڈ بینک (117 ٹرانزیکشنز) شامل ہیں۔

اخبار کے مطابق مشتبہ سرگرمیوں کی رپورٹ فائل کرنے والے غیر ملکی بینکوں میں ڈوئچے بینک ٹرسٹ کمپنی امیرکاز (ڈی بی آی سی اے)، بی این وائے میلن، سٹی بینک، اسٹینڈرڈ چارٹرڈ اور جے پی مورگن چیز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ایشیائی ترقیاتی بینک کے تعاون سے جاری توانائی منصوبے تاخیر کا شکار

ایس اے آرز میں بھارتی بینکوں کی موجودگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان غیر ملکی بینکوں کے 'نمائندہ بینکس' ہیں جنہوں نے اس نیٹ ورک میں یہ ایس اے آرز اور فگر فائل کیے ہیں جس کے ذریعے ٹرانزیکشنز متاثر ہوئیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ریکارڈ ظاہر کرتے ہیں کہ ایسے کیسز موجود ہیں جہاں غیر ملکی بینکوں کے انٹرنیشنل پیمنٹ گیٹ وے کے ذریعے 'مشتبہ ٹرانزیکشنز' کی گئیں۔

دیگر میں بھارتی بینکوں کی بیرونِ ملک موجود شاخوں مثلاً اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے کینیڈا میں موجود اکاؤنٹ اور برطانیہ میں یونین بینک آف انڈیا کے ایک اکاؤنٹ کو کلائنٹس نے اس ٹرانزیکشن کے لیے استعمال کیا جس کے بارے میں سوال اٹھائے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے مرکزی بینک کے سربراہ کی قیادت میں وفد کا دورہ متحدہ عرب امارات

اس میں سب سے اہم نمائندہ بینکنگ کا تعلق ہے، ایسا انتظام کہ جس پر ریگولیٹرز کی جانب سے غیر ملکی لین دین کی رزاداری کے خلاف کارروائیوں سے تحفظات بڑھتے جارہے ہیں۔

اس انتظام کے تحت ایک بینک (نمائندہ) دیگر بینکوں (فریقین) کے ڈپازٹ رکھتا ہے اور ان فریق بینکوں کو ادائیگی اور دیگر خدمات فراہم کرتا ہے۔

نمائندہ بینکنگ سے تعلق کے ذریعے بینکس مختلف دائرہ اختیار میں مالی خدمات تک رسائی اور اپنے صارفین کو سرحد پار ادائیگیوں کی خدمات فراہم کرسکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں