کیا ایک صدی پرانی ویکسین کووڈ 19 سے لوگوں کو تحفظ فراہم کرسکے گی؟

اپ ڈیٹ 13 اکتوبر 2020
برطانیہ میں اس کا ٹرائل شروع ہوا ہے —  اے ایف پی فائل فوٹو
برطانیہ میں اس کا ٹرائل شروع ہوا ہے — اے ایف پی فائل فوٹو

لگ بھگ ایک صدی پرانی ویکسین کے بارے میں طبی ماہرین کو لگتا ہے کہ وہ نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 سے کچھ تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے سائنسدانوں نے 1921 میں تیار ہونے والی بی سی جی ویکسین کی آزمائش شروع کردی ہے۔

برطانیہ کی ایکسٹر یونیورسٹی کے اس Tرائل میں ایک ہزار افراد کو شامل کیا جارہا ہے جن میں اکثریت طبی عملے کی ہوگی۔

بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین کو ٹی بی سے بچائو کے لیے سو سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

ویکسین اب بھی ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں عام استعمال ہوتی ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ ٹی بی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ یہ دیگر امراض کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہورہی ہے۔

یہ ویکسین نومولود بچوں کی اموات کا باعث بننے والی مختلف وجوہات کی روک تھام میں بھی مدد دے رہی ہے اور اس سے نظام تنفس کے انفیکشنز کا خطرہ بھی کم کرتی ہے۔

عام طر پر ویکسینز کو کسی مخصوص بیماری سے تحفظ کے لیے مدافعتی نظام کو ایک مخصوص انداز سے تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

مگر اس عمل کے نتیجے میں مدافعتی نظام میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور وہ دیگر بیماریوں کے خلاف بھی کردار ادا کرنے لگتی ہیں اور سائنسدانوں کو توقع ہے ایک صدی پرانی یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف جسم کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔

2011 میں مغربی افریقی ملک گنی بسائو میں ڈھائی ہزار بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں اس ویکسین کے فوائد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

تحقیق کے مطابق اس ویکسین کے نتیجے میں کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح میں ڈرامائی کمی آئی۔

اس کی فالو اپ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے نتیجے میں پیدائشی طور پر کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں وبائی امراض سے اموات کی شرح 40 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی۔

ایکسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر جان کیمبل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویکسین عالمی سطح پر اہم ثابت ہوسکتی ہے۔

اہوں نے کہا 'اگرچہ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے، مگر یہ کسی حد تک اس بیمااری سے بچا کر کووڈ ویکسینز اور علاج کی تیاری تک لوگوں کی مدد کرسکتی ہے'۔

برطانیہ میں اس ویکسین پر ٹرائل بین الاقوامی تحقیق کا حصہ ہے جو آسٹریلیا، نیدرلینڈز، اسپین اور برازیل میں جاری ہے جس کے لیے 10 ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

تحقیق میں طبی ورکرز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ وہ کورونا وائرس کا زیادہ سامنا کرتے ہیں تو محققین کو جلد علم ہوجائے گا کہ ویکسین کتنی موثر ہے۔

ڈاکٹر سام ہلٹن برطانوی ٹرائل میں شامل ہونے والے رضاکاروں میں سےس ایک ہیں اور ان کا کہنا تھا 'یہ ایک اچھا خیال ہے کہ بی سی جی کووڈ 19 کے شکار ہونے پر آپ کو زیادہ بیمار نہیں ہونے دے گی، تو میں اسے اپنے لیے تحفظ کا ذریعہ سمجھتا ہوں، کیونکہ مجھے سردیوں میں بھی اپنا کام کرنا ہوگا'۔

حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ متعدد اقسام کے انفیکشنز کے خلاف اس ویکسین کے اثرات پر مزید ٹرائلز ہونے چاہیے۔

تاہم بی سی جی ویکسین طویل المعیاد حل نہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں اس ویکسین کا استعمال برسوں سے نہیں ہورہا جبکہ بچپن میں جن لوگوں کو اس کا استعمال کرایا جاتا ہے، اس کا اثر ایک مخصوص عمر میں کم ہوجاتا ہے۔

مزید براں یہ ویکسین مدافعتی نظام کو تربیت دے کر ایسے اینٹی باڈیز اور خون کے سفید خلیاات تیار کرنے میں مدد نہیں دیتی جو کورونا وائرس کو شناخت کرکے اس کے خلاف لڑسکیں۔

اس وقت دنیا بھر میں 10 کورونا ویکسینز انسانی آزمائش کے حتمی مرحلے سے گزر رہی ہیں مگر ان کی عام دستیابی کب تک ممکن ہوسکے گی، یہ ابھی کہنا مشکل ہے۔

مارچ میں میں ایک تحقیق میں متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک میں نئے کورونا وائرس کے اثرات اور بی سی بی ویکسین کے درمیان ایک تعلق کو دریافت کیا گیا۔

یعنی ایسے ممالک جہاں اس ویکسین کا استعمال نہیں ہورہا، وہاں کورونا وائرس کے کیسز اور اموات کی شرح زیادہ ہے، کم آمدنی والے ممالک کو اس تحقیق میں شامل نہیں کیا گیا جس کی وجہ کووڈ 19 کے ناقابل اعتبار ڈیٹا اور ناقص طبی نظام قرار دی گئی۔

ڈاکٹر ڈینس کا کہنا ہے 'آپ ایک نئی ویکسین تیار کرسکتے ہیں، ہم واقعی اسمارٹ ہیں اورر ہم ایسا کرسکتے ہیں، مگر اس کے لیے 2 سال لگ سکتے ہیں اور ایسا نہ ہو کہ ان 2 برسوں میں بہت تاخیر ہوجائے'۔

ان کا کہنا تھا 'اگر ہمارے دنیا بھر میں دستیاب ایک چیز موجود ہو جسے استعمال کرکے ہم انسانوں کو مضبوط بناسکتے ہیں، تو یہ ہر ایک کی ہی کامیابی ہوگی'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں