لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پارلیمنٹ کی طرف مارچ کا اعلان

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2020
بڑھتی مہنگائی کو پورا کرنے کے لیے سیکڑوں خواتین 14 اکتوبر سے سروس اسٹرکچر اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں — فائل فوٹو:ٹوئٹر
بڑھتی مہنگائی کو پورا کرنے کے لیے سیکڑوں خواتین 14 اکتوبر سے سروس اسٹرکچر اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں — فائل فوٹو:ٹوئٹر

گزشتہ پانچ روز سے اسلام آباد میں احتجاج کرنے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز نے مطالبات پورے نہ ہونے پر دوپہر 2 بجے پارلیمنٹ کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کردیا۔

بڑھتی مہنگائی کو پورا کرنے کے لیے سیکڑوں خواتین 14 اکتوبر سے سروس اسٹرکچر اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔

دھرنے کی قیادت کرنے والی نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز فیڈریشن کی صدر رخسانہ انور نے کہا کہ پارلیمنٹ کی جانب مارچ کرنے کے لیے چارسدہ، مردان اور خیبرپختونخوا کی دیگر لیڈی ہیلتھ ورکرز کا انتظار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’باقی ساتھی آئیں گے تو پارلیمنٹ کی طرف مارچ کریں گے، پارلیمنٹ مارچ کے لیے اپنی حکمت عملی بھی طے کر لی ہے‘۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: سرکاری ملازمین نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دے دیا

ایک روز قبل رخسانہ انور نے مظاہرین کے مطالبات کو فوری طور پر پورا کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’سروسز اسٹرکچر اور سروسز کے قواعد کی تشکیل اور تنخواہوں میں اضافہ ہمارے اہم مطالبات ہیں جنہیں فوری طور پر پورا کیا جانا چاہیے‘۔

رخسانہ انور کا کہنا تھا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے پاس سروسز اسٹرکچر موجود نہیں اور انہیں 20 ہزار روپے سے لے کر 22 ہزار روپے تک تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ سندھ کے انہیں 20 ہزار روپے اور کورونا وائرس کے خطرات کے الاؤنس کی شکل میں مزید 17 ہزار روپے ادا کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اتوار کے روز پنجاب کے سیکریٹری صحت اجمل بھٹی کے ساتھ احتجاجی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی ملاقات کے دوران فیصلہ کیا گیا تھا کہ سروسز اسٹرکچر کی تشکیل سمیت ان کے تمام مطالبات کو پورا کیا جائے گا تاہم اس ملاقات کے مطابق ابھی تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا۔

ملاقات اور صحت کے عہدیداروں کی طرف سے دی گئی یقین دہانی کے بعد سیکڑوں مظاہرین جلد نوٹیفکیشن جاری ہونے کی اُمید کے ساتھ احتجاج چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’تاہم ابھی تک کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے اور حکومت اب نوٹیفکیشن جاری کرنے کے وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوری کےخلاف کارروائی یقینی بنانے کی ہدایت

انہوں نے کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو دھرنا ختم نہ کرنے کی صورت میں محکمانہ کارروائی کی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔

مظاہرین کے لیے سہولیات کا فقدان

لیڈی ہیلتھ ورکرز ہزاروں دیگر سرکاری ملازمین، یونینز، ایسوسی ایشنز، اداروں، تحریک اور اتحاد کے ہمراہ اپنی تنخواہوں کے حوالے سے مسائل پر احتجاج کے لیے 14 اکتوبر کو ایکسپریس چوک پر ملک بھر سے اکٹھا ہوئی تھیں۔

وزرا کے ساتھ مذاکرات ناکام ہونے کے بعد لیڈی ہیلتھ ورکرز کے علاوہ تمام مظاہرین جاچکے ہیں۔

تاہم لیڈی ہیلتھ ورکرز نے مطالبات کے پورے ہونے تک جانے سے انکار کردیا ہے۔

مظاہرے میں شامل ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انہیں متعدد سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، ان کے پاس سردی سے بچنے کے لیے کوئی کمبل نہیں، اسٹریٹ لائٹس کی غیر موجودگی میں روشنی کا کوئی انتظام نہیں، باتھ روز کی سہولیات نہیں اور پینے کے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔

مظاہرین کے 10 مطالبات ہیں جن میں نیشنل پروگرام آف فیملی پلاننگ کی اصل حالت میں بحالی، مساوی بونس اور تمام صوبوں میں ملازمین کے لیے تنخواہ شامل ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں