فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا معاملہ کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

اپ ڈیٹ 28 اکتوبر 2020
عدالت عالیہ میں درخواست پر سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت عالیہ میں درخواست پر سماعت ہوئی—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائیکورٹ نے فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے فرانس سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے سے متعلق ایک شہری کی دائر کردہ درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت درخواست گزار شہدا فاؤنڈیشن کے وکیل طارق اسد عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ فرانس کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ترکی، قطر سمیت مسلم ممالک نے احتجاج کیا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ فرانسیسی صدر نے خود 2 عمارتوں پر گستاخانہ خاکوں کی تشہیر کا کہا، اس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت نے مذمت تو کی ہے اور فرانسیسی سفیر کو بھی بلایا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ قومی اسمبلی سے بھی قرارداد منظور ہوئی ہے جبکہ پارلیمان سے قرارداد کا آنا بھی عوام کی ترجمانی ہے۔

تاہم بعد ازاں عدالت عدالیہ نے معاملے کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا اور کہا کہ وفاقی کابینہ عوامی جذبات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے۔

ساتھ ہی عدالت نے کیس کو نمٹا دیا۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2006 میں ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی تھی، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین نے پھر ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی۔

اسی میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے باوجود وقتا فوقتاً ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت جاری رکھی، جس پر 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مذکورہ واقعے کے بعد میگزین نے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کا سلسلہ روک دیا تھا، تاہم گزشتہ سال ایک بار پھر مذکورہ میگزین میں ’توہین آمیز خاکوں‘ کی اشاعت ہونے لگی تھی، جس پر دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔

رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

بعد ازاں چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

مزید پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

استاد کے سر قلم کیے جانے اور فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے بعد ہی عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت فرانسیسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ ’دماغی معائنہ‘ کرانے کی تجویز دی تھی، جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

اس کے علاوہ پاکستان میں پارلیمان نے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف قرارداد منظور کی تھی جبکہ فرانس سے سفیر کو واپس بنانے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

اس کے علاوہ بھی دنیا بھر کے مسلم ممالک میں بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا تھا اور کئی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کی گئی ہے۔

قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فرانس کے سیکیولر "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے 'بنیاد پرست اسلام' کے خلاف 'دفاع' کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں