ترکی کی فرانس کے گرجا گھر میں چاقو کے حملے کی مذمت

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2020
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، زبان یا رنگ نہیں ہے — فائل فوٹو / اے پی
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، زبان یا رنگ نہیں ہے — فائل فوٹو / اے پی

ترکی نے فرانس کے گرجا گھر میں ہونے والے چاقو کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ فرانس کے شہر نیس میں ایک حملہ آور نے چاقو کے وار کر کے ایک خاتون کا گلا کاٹنے کے علاوہ 2 افراد کو ہلاک جبکہ متعدد کو زخمی کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: فرانس: گرجا گھر میں چاقو سے حملہ، خاتون سمیت 3 افراد ہلاک

ترکی کی نیوز ایجنسی انادولو کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدارتی ترجمان ابراہیم کلن نے فرانس کے چرچ میں چاقو کے ایک مہلک حملے کی مذمت کی۔

انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’ہم نیس میں نوٹرے ڈیم گرجا گھر میں ہونے والے گھناؤنے دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ترک صدر اور عوام گرجا گھر میں ہونے والے حملے پر فرانسیسی عوام سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ ’دہشت گردی کا کوئی مذہب، زبان یا رنگ نہیں ہے‘۔

ترکی کے صدارتی ترجمان نے مزید کہا کہ ترکی ہر طرح کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف عزم اور یکجہتی کے ساتھ لڑے گا۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی

فرانس میں گرجا گھر میں حملے کو شہر کے میئر نے دہشت گردی کا واقعہ قرار دیا تھا۔

فرانسیسی پولیس نے اس بات کی بھی تصدیق کی تھی کہ پولیس نے حملہ آور کو گرفتار کرلیا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی کی جانب سے گرجا گھر میں حملے کی مذمت ایسے وقت پر سامنے آئی جب حال ہی میں گستاخانہ خاکوں پر فرانسیسی صدر کی حمایت سامنے آئی، جس کے نتیجے میں مسلم دنیا کی جانب سے شدید تنقید اور مذمت کا اظہار کیا گیا۔

بعد ازاں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے ایمانوئیل میکرون کو دماغی معائنہ کرانے کا مشورہ دیا تھا جس کے بعد فرانس نے انقرہ میں اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا تھا۔

ترک صدر نے مسلم ممالک اور مسلمانوں سے فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: فرانس : خنجر لہراتا حملہ آور فائرنگ سے زخمی

بعد ازاں رجب طیب اردوان نے گستاخانہ خاکوں پر فرانس کے ساتھ بڑھتی محاذ آرائی پر کہا تھا کہ مغربی ممالک اسلام کا مذاق اڑا کر ’صلیبی جنگ دوبارہ شروع‘ کرنا چاہتے ہیں۔

پارلیمنٹ میں اپنی جماعت اے کے پارٹی کے قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ حضرت محمد ﷺ کی ذات پر حملوں کے خلاف کھڑا ہونا ’ہمارے لیے عزت کا معاملہ ہے‘ اور ہوسکتا ہے کہ انقرہ طویل محاذ آرائی کی تیاری کرے۔

فرانسیسی صدر کا متنازع بیان

واضح رہے کہ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ترک صدر کا فرانسیسی صدر کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی تجویز

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: فرانسیسی صدر نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا، وزیراعظم

خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس کے سیکیولر "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی تھی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔

ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے 'بنیاد پرست اسلام' کے خلاف 'دفاع' کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں 'اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد' کروانا ضروری ہے۔

ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گی۔

مزید پڑھیں: جامعۃ الازھر کی اسلام کے حوالے سے فرانسیسی صدر کے بیان کی مذمت

جس پر ردِعمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے 'اسلام پسند علیحدگی' کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون کے بیان کو 'نسل پرستانہ' اور 'نفرت انگیز' قرار دیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں