جدہ: فرانسیسی قونصل خانے کے سیکیورٹی گارڈ پر ’حملے‘ کے الزام میں سعودی شہری گرفتار

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2020
حکام نے بتایا کہ زخمی گارڈ کو ہسپتال منتقل کردیا تاہم اس کی جان خطرے سے باہر ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
حکام نے بتایا کہ زخمی گارڈ کو ہسپتال منتقل کردیا تاہم اس کی جان خطرے سے باہر ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

جدہ: پولیس نے فرانسیسی قونصل خانے کے سیکیورٹی گارڈ پر ’تیز دھار آلے‘ سے حملے کے الزام میں سعودی شہری کو گرفتار کرلیا۔

غیرملکی خبررساں ادارے ‘رائٹرز‘ کے مطابق بحیرہ احمر کے شہر جدہ میں فرانسیسی قونصل خانے کا سیکیورٹی گارڈ حملے میں زخمی ہوگیا۔

مزید پڑھیں: فرانس میں گستاخانہ خاکے، ہر قسم کی دہشت گردی قابل مذمت ہے، سعودی عرب

پولیس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ گارڈ کو ’معمولی چوٹیں‘ آئیں اور زیر حراست ملزم کے خلاف ’قانونی کارروائی‘ کی جارہی ہے۔

فرانسیسی سفارت خانے نے کہا کہ قونصل خانے پر تعینات ایک گارڈ چاقو کے حملے میں زخمی ہوگیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ زخمی گارڈ کو ہسپتال لے جایا گیا تاہم اس کی جان کو کوئی خطرہ نہیں۔

ایک بیان میں کہا کہ ’فرانسیسی سفارتخانہ مذکورہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہے جس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا‘۔

خیال رہے کہ فرانس سے محاذ آرائی میں اضافہ اس وقت ہوا جب وہاں گزشتہ دنوں ایک استاد نے فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو میں شائع گستاخانہ خاکے دکھائے، جس کے بعد اس استاد کا سر قلم کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: فرانس میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف سینیٹ میں مذمتی قرارداد منظور

فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

فرانس کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے اقدام کا دفاع کیا گیا، جس نے مسلم اکثریتی ممالک میں غم و غصے کی لہر کو مزید بڑھا دیا اور مسلم اکثریتی ممالک میں مختلف مقامات پر فرانس کے خلاف مظاہرے بھی کیے گئے، مزید یہ کہ ترکی کے غصے میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب چارلی ہیپڈو نے اپنے سرورق پر ترک صدر کا تضحیک آمیز کارٹون شائع کیا۔

دوسری جانب سعودی عرب نے فرانس میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی شدید مذمت کی لیکن ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے گونجنے والی دیگر ممالک سے آواز نہیں ملائی۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2006 میں ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی تھی، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین نے پھر ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی۔

اسی میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے باوجود وقتا فوقتاً ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت جاری رکھی، جس پر 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مذکورہ واقعے کے بعد میگزین نے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کا سلسلہ روک دیا تھا، تاہم گزشتہ سال ایک بار پھر مذکورہ میگزین میں ’توہین آمیز خاکوں‘ کی اشاعت ہونے لگی تھی، جس پر دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔

یہ بھی پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن کی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل، پورے ہفتے احتجاج کا اعلان

رواں برس ستمبر کے آغاز میں چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

بعد ازاں اکتوبر کے وسط میں فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

اس واقعے کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

مذکورہ استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘۔

چنانچہ فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے بعد ہی عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت فرانسیسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ ’دماغی معائنہ‘ کرانے کی تجویز دی تھی، جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

مزید پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

مذکورہ صورتحال پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کو ہدف بنا کر مسلمانوں، بشمول اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی راہ اختیار کی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسلام پر اپنے بلا سوچے سمجھے حملے سے صدر ایمانوئیل میکرون یورپ اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات پر حملہ آور ہوئے ہیں اور انہیں ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے۔

علاوہ ازیں فرانس کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور پارلیمان کے دونوں ایوان میں فرانس کے صدر کے اسلاموفوبیا سے متعلق بیان پر مذمتی قرار دادیں بھی منظور کی گئیں۔

دوسری جانب ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں کویت سمیت متعدد عرب ممالک کی کاروباری تنظیموں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور یورپی ملک کی ہر طرح کی مصنوعات کو دکانوں سے ہٹایا جا رہا تھا جس پر فرانس کی حکومت نے عرب ممالک سے اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ختم کرنے کی اپیل بھی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں