سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن سے ڈیٹا لیک کے معاملے پر رپورٹ طلب

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2020
عدالت نے سیکیورٹی اینڈ ایکچینج کمیشن سے ڈیٹا لیک کے معاملے پر رپورٹ طلب کر لی— فائل فوٹو: رائٹرز
عدالت نے سیکیورٹی اینڈ ایکچینج کمیشن سے ڈیٹا لیک کے معاملے پر رپورٹ طلب کر لی— فائل فوٹو: رائٹرز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے اپنے ایک عہدیدار کے خلاف تادیبی کارروائی سے متعلق رپورٹ طلب کر لی جن پر الزام ہے کہ انہوں نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ کے خاندانی کاروبار کا ڈیٹا میڈیا کو لیک کردیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ارسلان ظفر کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت دوبارہ شروع کی جنہوں نے ان کے خلاف تادیبی کارروائی کو چیلنج کیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'جو شخص معاون خصوصی کیلئے ٹھیک نہیں، وہ سی پیک اتھارٹی کا سربراہ کیسے ہوسکتا ہے'

ابتدا میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے وکیل شاہد باجوہ سے کہا کہ وہ اپنے مؤکل کو مشورہ دیں کہ وہ ارسلان ظفر کے خلاف کارروائی شروع کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کریں۔

وکیل نے کہا کہ وہ صرف اپنے مؤکل کو قانون کے مطابق سختی سے معاملے میں آگے بڑھنے کی ہدایت کرسکتے ہیں۔

اس کے بعد چیف جسٹس من اللہ نے دونوں فریقین سے کہا کہ وہ اپنے دلائل پیش کریں۔

بیرسٹر تیمور اسلم خان کا مؤقف تھا کہ ان کے مؤکل نے صرف ان ریکارڈوں کو چیک کیا جس کے وہ مجاز تھے، انہوں نے نشاندہی کی کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 9 ستمبر کو ان کے موکل کے خلاف تحقیقات کو حتمی شکل دی، حالانکہ کچھ دن قبل ایک نجی ٹیلی وژن چینل کے ساتھ بھی یہی معلومات شئیر کی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ میں سی پیک اتھارٹی کی قانونی حیثیت پر سوالات

ان کے بقول یہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

جب چیف جسٹس نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے وکیل سے پوچھا کہ کیا اس واقعے کی تصدیق کے لیے کوئی تحقیقات کی گئیں تو انہوں نے کہا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 26 نومبر کو آئندہ سماعت پر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کی رپورٹ طلب کر لی۔

وکیل نے بتایا کہ 10 ستمبر کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے عاصم باجوہ کے اہل خانہ کے زیر انتظام کمپنیوں کے ڈیٹا تک رسائی کے لیے درخواست گزار کے خلاف انکوائری کا آغاز کیا، وکیل نے مزید کہا کہ بعد میں اس کارروائی کے لیے درخواست گزار کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

وکیل کے مطابق نجی کمپنی کے ڈیٹا تک رسائی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی یا سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایچ آر مینوئل کے خلاف نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے معاون خصوصی کا عہدہ چھوڑ دیا

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 22 ستمبر کو 8عہدیداروں کو شوکاز نوٹس جاری کیا تھا اور دو کو ’ڈیٹا لیک کرنے‘ پر انتباہی مراسلہ جاری کیا تھا۔

درخواست گزار ارسلان ظفر نے انکوائری کمیٹی کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ان سے جونیئر ایک افسر کو معاملے کی تحقیقات کی ذمےداری سونپی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ انکوائری کمیٹی نے درخواست گزار کو لازمی ٹائم فریم میں الزامات کا جواب دینے کی اجازت نہیں دی اور عجلت میں معاملے پر آگے بڑھ گئے۔

اس میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے خلاف لگائے گئے الزامات بے بنیاد اور محض مفروضوں پر مبنی ہیں۔

سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے محکمہ ایچ آر ڈپارٹمنٹ نے آٹھ ملازمین کو شوکاز نوٹسز جاری کردیے، جس میں مارکیٹ سرویلنس ڈپارٹمنٹ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ارسلان ظفر بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: معاون خصوصی اطلاعات کے خلاف الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

شوکاز نوٹس کے مطابق یہ اطلاعات ہیں کہ ارسلان ظفر نے جولائی کے آخری ہفتے میں عاصم باجوہ اور ان کے کنبے کے افراد کی ذاتی معلومات تک غیر مجاز رسائی حاصل کی تھی۔

ان پر سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ایچ آر مینوئل کی خلاف ورزی کا الزام ہے، ان سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے اس عمل کی وجوہات فراہم کریں اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر کمیشن کو مطمئن کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں