کراچی: آرزو کیس میں نامزد عالم دین کی ضمانت قبل از گرفتاری منظور

عدالت نے مرکزی ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا—فائل/فوٹو: ڈان
عدالت نے مرکزی ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا—فائل/فوٹو: ڈان

کراچی کی مقامی عدالت نے آرزو راجا مبینہ اغوا، جبری مذہب تبدیلی اور شادی کیس میں نامزد عالم دین کو 50 ہزار کے مچلکوں کے عوض ضمانت قبل از گرفتاری دے دی۔

عدالت نے قاضی عبدالرسول کو 16 نومبر تک ضمانت دے دی ہے جبکہ آرزو کیس مقامی عدالت میں زیرسماعت ہے جبکہ ان کی حوالگی کا دوسری درخواست سندھ ہائی کورٹ میں ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: دو کم عمر لڑکیوں کے نکاح خواں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

قاضی عبدالرسول نے اپنی درخواست میں کہا کہ آرزو کے والد کی جانب سے جو الزامات لگائے ہیں وہ بے بنیاد اور ذاتی رنجش ہے اور انہوں نے کسی غیر قانونی اقدام یا جرم میں شریک ہونے سے انکار کیا۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آرزو اور علی اظہر ان کے پاس شادی کے لیے 13 اکتوبر کو اپنے وکلا کے ساتھ آئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرزو نے بھی ایک حلف نامہ پیش کیا تھا، جو جسٹس آف پیس کی جانب سے مصدقہ تھا اور وہ اپنی مرضی سے شادی کررہی تھی، اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اسلام قبول کرنے کا ایک سرٹیفیکیٹ بھی تھا جو ایک مفتی نے دیا تھا۔

عالم دین نے کہا کہ دونوں جانب سے دستاویزات پیش کیے جانے پر نکاح پڑھوایا اورفریقین نے واپس جانے سے قبل بتایا تھا کہ آرزو کی عمر 18 برس ہے۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں سندھ ہائی کورٹ کے تشکیل کردہ ایک میڈیکل بورڈ نے کہا تھا کہ آرزو کی عمر 14 برس ہے۔

قاضی عبدالرسول نے اپنی درخواست میں کہا کہ پولیس کی جانب سے ان کی ‘غیر قانونی گرفتاری’ کا خطرہ ہے اس لیے عدالت ضمانت دے دی جبکہ پولیس نے اس سے قبل عدالت کو بتایا تھا کہ قاضی عبدالرسول اور دیگر دو افراد مفرور ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'اغوا اور مذہب تبدیل کرنے کا معاملہ': آرزو کی عمر 14سال ہے، میڈیکل بورڈ

عدالت میں ضمانت کے لیے دی گئی درخواست میں انہوں نے بتایا کہ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں اس کا شرعی قوانین کے تحت ان پر اطلاق نہیں ہوتا اور پولیس جعلی کیس میں گرفتار کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

انہوں نے پولیس کے حوالے سے بتایا کہ دوسرے فریق کی ملی بھگت سے ان کے گھر اور دفتر میں مسلسل چھاپے مار رہی ہے۔

مرکزی ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ

دوسری جانب ایک اور مقامی عدالت نے آرزو کیس کے مرکزی ملزم اور ان لڑکی کے شوہر علی اظہر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا، جن کے بارے میں تفتیشی افسر نےبتایا تھا کہ ان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں ہے۔

علی اظہر کو جسمانی ریمانڈ کی مدت ختم ہونے پر جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی محمد علی دل کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران ملزم کے وکیل محمد نزار ایڈووکیٹ نے بتایا کہ معاملے کی پوری سماعت اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ آرزو نے سندھ ہائی کورٹ کے سامنے خود اعترافی بیان دیا کہ انہیں اغوا نہیں کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: کم سن لڑکی آرزو کے 'اغوا' میں ملوث ملزم ریمانڈ پر پولیس کے حوالے

درخواست گزار آرزو کے والد کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد ریاض عباسی اور لیوک وکٹر اور پراسیکیوٹر عبدالرحمٰن تھہیم پیش ہوئے اور تفتیشی افسر کی رپورٹ کی حمایت کرتے ہوئے مناسب حکم جاری کرنے کی استدعا کی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ نے دونوں جانب کے دلائل سننے اور مقدمے کا ریکارڈ دیکھنے کے بعد ملزم علی اظہر کو جوڈیشل ریمانڈ میں بھیجنے اور 16 نومبر کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے تفتیشی افسر کو اگلی سماعت میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی۔

آرزو ‘اغوا’ کیس

دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ غربی نے کم سن لڑکی آرزو راجا کے مبینہ اغوا اور اور ان سے شادی کرنے والے ملزم سید علی اظہر کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کردی۔

کیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سندھ ہائی کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں تیار کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑکی کی عمر 14 برس ہے۔

گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ہدایت کی تھی کہ بچی کو واپس شیلٹر ہوم میں لے جایا جائے اور پولیس سے کہا کہ وہ سندھ چائلڈ میریجز ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے مبینہ شوہر کے خلاف کارروائی کرے۔

مزید پڑھیں: کراچی: مذہب تبدیل کرنے والی آرزو کی عمر کی تصدیق کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

تفتیشی افسر شارق احمد صدیقی نے مزید بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے انہیں آرزو فاطمہ کے شوہر سید علی اظہر سمیت ان کی شادی کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام افراد کے خلاف سماعت شروع کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ متاثرہ لڑکی کا طبی جائزہ لیا گیا اور ہسپتال حکام سے اس کی رپورٹ دو روز میں مل جائے گی اور سرکاری وکیل عبدالرحمٰن تھہیم کی تجویز پر ایف آئی آر میں سندھ چائلد میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے دفعات بھی شامل کرلی گئی ہیں۔

تفتیشی افسر نے عدالت سے ملزم کے مزید جسمانی ریمانڈ کی درخواست کی تاکہ مزید تفتیش اور دیگر قانونی معاملات مکمل کیے جاسکیں۔

وکیل صفائی ایڈووکیٹ چوہدری محمد رمضان نے کہا کہ تفتیشی ایجنسی 3 نومبر تک ریمانڈ حاصل کرنے کے باوجود کوئی پیش رفت کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شادی کے مبینہ سہولت کاروں کے پتے تفتیشی افسر کو پہلے ہی معلوم ہیں، اس لیے یہ تفتیشی ایجنسی کی غفلت اور ناکامی ہے کہ کوئی گرفتاری یا مبینہ سہولت کاروں کے خلاف سماعت شروع نہ ہوئی۔

ایڈووکیٹ چوہدری محمد رمضان نےعدالت سےاستدعا کی کہ ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد 13 سالہ آرزو کو بازیاب کرالیا گیا، مرتضیٰ وہاب

جج نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے تفتیشی افسر کو سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے والے فرد کے خلاف تفتیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جج نے 12 نومبر تک ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کردی اور تفتیشی افسر کو اگلی سماعت میں تفتیشی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور ملزم کی کووڈ-19 کی رپورٹ بھی جمع کرا دیں۔

واضح رہے کہ پولیس نے ابتدائی طور پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 364 اے کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، تاہم بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ کی ہدایت پر سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 2013 کی دفعات بھی شامل کی گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں