وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے مشترکہ پریس کانفرنس میں پاکستان میں بھارت کی جانب سے دہشتگردی اور دہشتگردوں کو مالی معاونت کے ثبوت پیش کردیے اور اس حوالے سے ایک ڈوزیئر بھی جاری کردیا۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ایجنٹوں کی آڈیو اور ویڈیو بھی پریس کانفرنس میں دکھائی گئی اس کے ساتھ ساتھ مختلف ’ناقابل تردید‘ ثبوت پیش کیے گئے۔

اسلام آباد میں وزیر خارجہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بھارت نے کل لائن آف کنٹرول پر جو بزدلانہ کارروائی کی ہے، میں اس کی مذمت کرتا ہوں جس میں ہمارے معصوم نہتے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

آپ دیکھ رہے ہیں کچھ عرصے سے یہ ان کا طریقہ کار چل رہا ہے کہ وہ مسلسل سیز فائر کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، یہ سب سے اہم معاہدہ ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان طے ہوا تھا اور جس روانی سے یہ اس کی دھجیاں اڑا رہے ہیں وہ قوم کے سامنے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے اصلی چہرے کو قوم اور عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کرنا ہے، یہ سفر جو آپ دیکھ رہے ہیں، جس کا آغاز سیکولرزم سے ہوتا ہے اور آج وہ ایک فاشنز کی شکل اختیار کر چکا ہے اور یہ اب دنیا پر عیاں ہو چکا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے پیش کیے گئے ثبوت بھارت کی جانب سے مالیاتی اور مواد کی سطح پر متعدد دہشت گرد تنظیموں کی مدد کی عکاسی کرتے ہیں جس میں اقوام متحدہ کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی جماعت الاحرار، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان یہ ڈوزیئر اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، پی 5 ممالک اور دیگر کو پیش کرے گا اور ہم توقع کرتے ہیں کہ عالمی برادری وہ خطے میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور اقدامات کریں گے۔

ڈوزیئر کے اہم نکات

  • بھارت پر زور دیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی اسپانسرشپ روکے۔

  • پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کی مالی معاونت میں ملوث تمام عناصر کو متعلقہ مقامی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔

  • پاکستان نے اہم بین الاقوامی شراکت داروں سے پہلے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اب ہم دنیا کو ناقابل تردید ثبوت پیش کررہے ہیں، بھارت کی پاکستان میں براہ راست ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں معصوم انسانوں کی جانوں کا ضیاع ہوا۔

  • بین الاقوامی برادری ایک ریاست کی جانب سے بدمعاش رویے پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی جو عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے کنونشنز پر عمل کرنے سے انکاری ہے۔

  • میں واضح کردوں کہ بھارتی ریاست دہشت گردی کو اسپانسر کررہی ہے جو اپنے اس رویے کی مستقل نمائش کر رہا ہے، اگر دنیا پاکستان اور خطے کو غیرمستحکم کرنے کے بھارتی ایجنڈے کو سنجیدگی سے نہیں لے گی تو مجھے ڈر ہے کہ جوہری طاقت کے حامل جنوبی ایشیا میں امن و استحکام ان کی ترجیح محسوس نہیں ہوتی۔

  • ہمارے قانون نافذ کرنے والے اور سیکیورٹی ادارے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ چکے ہیں اور اس میں فتح حاصل کر چکے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ اپنا دفاع کیسے کرنا ہے، بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دے کر پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔

  • بھارت تسلیم کرے یا نہیں لیکن تمام اہم طاقتیں جانتی ہیں کہ بھارت ہورے خطے کے لیے ایک خطرہ ہے، انہیں بھارت کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی اسپانسرشپ سے روکنا چاہیے، ہم ہر ممکن طریقے سے اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔


شاہ محمود نے کہا کہ وہ ریاست جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، وہ اپنی حرکتوں، اپنی کارروائیوں سے ہماری اطلاعات کے مطابق ایک سرکش اور بدمعاش قوم کا روپ اختیار کرنے جا رہی ہے۔

شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کی—اسکرین شاٹ
شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کی—اسکرین شاٹ

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایسی مصدقہ اطلاعات اور شواہد ہیں کہ جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان ریاستی دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، ہندوستان نے پاکستان عدم استحکام کا شکار کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ تشویش میرے لیے نئی نہیں ہے، گاہے بگاہے مختلف سطح اور فورمز پر میں اس کا اظہار اور سفارتی ذرائع کو استعمال کرتا رہا ہوں لیکن وقت آ گیا ہے کہ اب قوم بالخصوص بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لیا جائے، میں سمجھتا ہوں کہ مزید خاموش رہنا پاکستان کے مفاد میں نہ ہوگا اور اس خطے کے امن اور استحکام کے مفاد میں بھی نہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف نمایاں کامیابیاں، ہمارے کامیاب آپریشنز کو ہندوستان ہضم نہیں کر پا رہا اور ان کا منصوبہ اب واضح ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 9/11 کے بعد پاکستان ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جس کی ہم نے بہت بھاری قیمت بھی ادا کی، اس کا اعتراف کیا بھی جاتا ہے لیکن جتنا ہونا چاہیے اتنا نہیں ہوتا۔

اس موقع پر انہوں نے پریس کانفرنس کے دوران بذریعہ پروجیکٹر سلائیڈز کے ذریعے ایک گراف بھی دکھایا جس میں 2001 سے 2020 تک پاکستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے اعدادوشمار بھی دکھائے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوران 19ہزار 130 دہشت گرد حملے پاکستانیوں نے برادشت کیے، 83 ہزار سے زائد افراد ہلاک و زخمی ہوئے اور ان میں 32ہزار شہادتیں ہیں جس میں 23ہزار نہتے شہری، بچے اور خواتین ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مالی نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کو 126 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا ہے اور جو معاشی مواقع گنوائے اس پر تو میں نظر دوڑا ہی نہیں رہا کیونکہ اس کو گننا آسان نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان دنیا میں امن و استحکام کے حصول کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا تھا تو بھارت پاکستان کے گرد ایک دہشت گرد نیٹ ورک کا جال مسلسل بن رہا تھا، ہندوستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے رہا تھا اور ناصرف اپنی سرزمین بلکہ گردونواح اور پڑوسی میں بھی جہاں ان کو جگہ ملی، انہوں نے فائدہ اٹھایا اور پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش جاری رکھی۔

انہوں نے کہا کہ آج ہمارے پاس ناقابل تردید شواہد ہیں او وہ شواہد قوم اور عالمی برادری کے سامنے اس ڈوزیئر کی شکل میں پیش کر رہا ہوں، اس ڈوزیئر میں بہت سی تفصیلات ہیں لیکن یہ تفصیلات مکمل نہیں ہیں، تفصیلات ہمارے پاس اور بھی ہیں اور بوقت ضرورت استعمال کی جا سکتی ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پچھلے تین چار ماہ سے دہشت گردی کو پھر ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کی پھر پشت پناہی کی جا رہی ہیں جس کی تازہ مثال وہ حالیہ حملے ہیں جو پشاور اور کوئٹہ میں ہوئے اور یہ ان کے بڑے منصوبے کی عکاسی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بھارت کی خفیہ ایجنسیز ان کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کر رہی ہیں جن کا محور پاکستان ہے مثلاً تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی، جمعیت الااحرار، یہ وہ تنظیمیں ہیں جنہیں پاکستان نے شکست دی اور آج ان میں پھر روح پھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کو اسلحہ، بارود اور آئی ای ڈیز سپلائی کیے جا رہے ہیں او ان کو اکسایا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان میں علما، اہم شخصیات او ر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آپ کے علم میں ہو گا کہ اگست 2020 میں ہندوستان نے تحریک طالبان پاکستان، جمعیت الاحرار اور ایچ یو اے کو ایک جگہ جمع کیا اور آج وہ مسلسل کوشش کر رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، ایل ایف اور بی آر اے کے درمیان ایک مشترکہ اتحاد قائم کر کے یکجا کردیا جائے جو اسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق آئندہ آنے والے مہینوں نومبر دسمبر میں یہ پاکستان میں دہشت گردی کارروائیوں میں اضافے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ان کی ایجنسیز اور سہولت کاروں کے درمیان کم از کم چار نشستیں ہو چکی ہیں جن میں یہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی، لاہور، پشاور اور دیگر پر حملے کرنے کی کوشش کریں گے۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ہمارے پاس ناقابل تردید شواہد موجود ہیں کہ را اور ڈی آئی اے جو انکی خفیہ ایجنسیز ہیں وہ پاکستان میں دہشت گردی کو مالی مدد فراہم کر رہی ہیں، دہشت گردوں کی تربیت کر رہی ہیں ، ان کو پناہ دیتے ہیں اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات اٹھا رہی ہیں جس کا مقصد ریاستی دہشت گردی اور عدم استحکام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈوزیئر اس بات کا انکشاف کرتا ہے کہ بھارت کے تین مقاصد کیا ہیں جن میں سے میں تین کا ذکر کرنا چاہوں گا، ان کا پہلا مقصد پاکستان کی امن کی جانب پیشرفت میں خلل ڈالنا ہے جس کے لیے گلگت بلتستان، سابق فاٹا اور بلوچستان کے علاقوں میں قومیت کو ہوا دی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا دوسرا مقصد ہے کہ پاکستان معاشی طور پر مستحکم نہ ہو سکے اور ہمارے ہاں خوشحالی کے راستے میں دیوار کھڑی جائے اور اس کی تازہ مثال ایف اے ٹی ایف اجلاس ہے جس میں دنیا پاکستان کے اقدامات کو سراہ رہی تھی لیکن ہندوستان وہ واحد ملک تھا جو پاکستان کو بلیک لسٹ میں دھکیلنے کی باقاعدہ کوشش کر رہا تھا اور وہ پاکستان کے خلاف لابنگ کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کوشش ہے یہاں اس قسم کا انتشار اور افرا تفری پیدا کی جائے کہ یہاں ایک غیریقینی صورتحال پیدا ہو جس سے معاشی استحکام ممکن نہ ہو سکے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت کا تیسرا مقصد سیاسی عدم استحکام ہے جس کے ذریعے وہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جس ڈوزیئر کی تفصیلات ڈی جی آئی ایس پی آر پیش کریں گے یہ چار چیزوں کا انکشاف کر رہا ہے جس میں پہلا یہ ہے کہ بھارتی حکومت اور دہشت گرد تنظیموں کے تعلق کو وسیع تر کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف تین سالوں میں بھارت نے ان خاص دہشت گرد تنظیموں کو وسائل مہیا کیے ہیں اور اب تک یہ 22ارب روپے تقسیم کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت اب ہمارے جواب کا انتظار کرے، پاک فوج

انہوں نے کہا کہ تیسری چیز یہ ہے کہ بھارت سی پیک کو باقاعدہ سبوتاژ کر رہا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سی پیک کی کامیابی پاکستان کے لیے معاشی طور پر بڑی تبدیلی کا سبب بن سکتا ہے، اس کے لیے انہوں نے اپنی انٹیلی ایجنسی میں ایک سیل قائم کیا ہے جس کا کام سی پیک منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے، یہ سیل براہ راست بھارتی وزیر اعظم کی سربراہی میں کام کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سیل کا مقصد سی پیک منصوبوں کو متاثر کرنا، تاخیری حربے استعمال کرنا اور تعطل ڈالنا شامل ہے اور ہمارے اطلاعات کے مطابق یہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اب تک اس سیل کو 80ارب روپے دے چکے ہیں جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کم از ک 700 کی ایسی ملیشیا تیار کی گئی ہے جو ان منصوبوں گائے بگاہے نشانہ بنائے گی۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ میں ہندوستان کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان تیار ہے، ان منصوبوں کے لیے ہمارے جوان تیار ہیں اور پاکستان نے دو سیکیورٹی ڈویژنز نہ صرف تیار کی ہیں بلکہ انہیں انجینئرز کے لیے تعینات بھی کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈوزیئر میں آخری نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں شورش کو ہوا دینا چاہتا ہے، ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں، کل بلتستان کا الیکشن ہونا ہے اور ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ الیکشن سے پہلے بھی انہوں نے وہاں قوم پرستوں کے ذریعے تخریبی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور قومیت کو ہوا دینے کی کوشش کی، ہمارے پاس یہ اطلاعات بھی ہیں کہ الیکشن کے بعد بھی ان کے ارادے نیک نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو یہ علم ہے کہ ہندوستان کم از کم تین بین الاقوامی کنونشنز کی صریحاً خلاف ورزی کررہا ہے جس میں اقوام متحدہ کے چارٹر 2(4)، ویانا کنونشن کے آرٹیکل 41(3)، یو ایس سی آر 1371 کے پیراگراف 2 اور 5 شامل ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس

اس موقع پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے جاری کیے گئے ڈوزیئر سے متعلق کچھ معلومات فراہم کیں۔

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار—فائل فوٹو: ڈان نیوز
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار—فائل فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ بدامنی میں اضافہ بھارت کے تمام دہشت گرد برانڈز، قوم پرست اور علیحدگی پسندوں سے براہ راست رابطوں کا نتیجہ ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ علیحدہ ہونے والے جماعت الاحرار اور حزب الاحرار کے گست 2020 میں ساتھ آنے کے بعد تحریک طالبان پاکستان کے دوبارہ متحد ہونے کے بعد بھارت مسلسل بلوچستان کے کالعدم علیحدگی پسند گروہوں بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی آر اے کے ساتھ ٹی ٹی پی کا ایک کنسورشیم بنانے میں مصروف ہے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بلوچ علیحدگی پسند گروہ پہلے ہی براس کے بینر تلے متحد ہیں، براس 2018 میں بنائی گئی تھی۔

دوران پریس کانفرنس ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسر کرنل راجیش جو افغانستان میں بھارتی سفارتخانے میں ملازم تھے جنہوں نے دری زبان میں خط میں واضح لکھا کہ ان کی ان دہشت گرد گروہوں کے کمانڈرز کے ساتھ 4 ملاقاتیں ہوئی ہیں کہ پاکستان کے میٹروپولیٹن شہروں کراچی، لاہور اور پشاور میں نومبر اور دسمبر 2020 میں دہشت گردی کی کارروائی کی جائے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیز داعش پاکستان بنا کر پاکستان کا داعش کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں، حالیہ دنوں میں 30 بھارتی داعش کے عسکریت پسندوں کو بھارت سے افغانستان اور پاکستان سرحد کے ساتھ مختلف کیمپس میں منتقل کیا گیا ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کے 2 انٹیلیجنس آپریٹو کی جانب سے کیا گیا ہے، ان عسکریت پسندوں کو داعش کمانڈر شیخ عبدالرحیم عرف عبدالرحمٰن مسلم دوست کے حوالے کیا گیا۔

انہوں نے بھارت کی دہشتگردوں کو معاونت کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ناقابل تردید ثبوت سامنے آئے ہیں کہ پاکستانی سرحد کے ساتھ آپریٹ کرنے والے بھارتی سفارتخانے اور قونصل خانے پاکستان کے خلاف دہشتگردی کے لیے دہشت گردوں کی معاونت کے گڑھ بن چکے ہیں، ہمارے پاس بھارتی دہشت گردی کی فنڈنگ کے ثبوت ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھارتی سفارتکار باقاعدگی سے مختلف دہشتگرد سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں، ان میں سے ایک میں افغانستان کے لیے بھارتی سفیر اور جلال آباد میں بھارتی قونصلر نے تحریک طالبان پاکستان اور علیحدگی پسند بلوچ گروہوں کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے شراکت داروں سے تفصیلی بات چیت کی۔

انہوں نے کہا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را تیسرے ملک میں اپنے فرنٹ مین کو مالی معاونت فراہم کرنے کر رہی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے 2 ٹرانزیکشن کی ہیں، جس میں سے ایک خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے تھی، یہ دونون ٹرانزیکشن بھارتی بینک سے کی گئی اور 28 ہزار ڈالر پنجاب بینک انڈیا سے منتقل کیے گئے، اس کے علاوہ 55 ہزار 851 ڈالر کی ٹرانزیکشن بھارتی شہری من میت کی جانب سے نئی دہلی میں بھارتی بیک سی کی گئی اور اس رقم کو افغانستان انٹرنیشنل بینک میں وصول کیا گیا۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ ایک اور موقع پر را نے افغانستان میں بھارتی سفارتخانے کا استعمال کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کمانڈرز سے ملاقاتیں کیں، اس سلسلے میں دری میں موجود خط واضح کرتا ہے کہ بھارت نے ٹی ٹی پی قیادت کو اپنے شراکت داروں کے ذریعے ٹی ٹی پی قیادت کو 8 لاکھ 20 ہزار ڈالر ادا کیے۔

مزید پڑھیں: بھارت، داعش کے گٹھ جوڑ سے عالمی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں کا انکشاف

انہوں نے بتایا کہ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے لیے بھارت نے بلوچستان میں دہشت گردی کے لیے 700 افراد کی ملیشیا کھڑی کی، 24 اراکین پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں 10 را آپریٹو بھی شامل تھے اور 60 ملین (6 کروڑ) ڈالر اس فورس کے لیے مختص کیے گئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی سفارتخانہ انسانی مدد کے کام اور بلوچستان منصوبوں کی آڑ میں قوم پرستوں کو ایک بھاری رقم ادا کر رہا ہے، ہمارے پاس 2 کروڑ 33 لاکھ 5 ہزار امریکی ڈالر کی 4 ٹرانزیکشن کے ثبوت موجود ہیں تاہم یہاں پیش کردہ ایک ثبوت کے مطابق بلوچستان میں بدامنی کے لیے قومی پرست کو 50 لاکھ ڈالر ادا کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ سرفراز مرچنٹ اور طارق میر کے اعترافی بیان میں یہ واضح ہے کہ الطاف حسین گروپ کو 2 بھارتی کمپنیوں (جے وی جی ٹی اور پارس جویلری) کے ذریعے را کی جانب سے مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی اور را سے 32 لاکھ 30 ہزار ڈالر منتقلی کے شواہد موجود ہیں۔

دہشتگردوں کو سامان و ہتھیاروں کی مدد فراہم کرنے کے ثبوت

دوران پریس کانفرنس انہوں نے بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کو ہتھیاروں اور سامان کی مدد فراہم کرنے کے بارے میں بتایا گیا کہ دہشتگردوں کی فنڈنگ کے علاوہ بھارت اسلحہ، گولہ بارود اور آئی ای ڈیز کے ذریعے مختلف تنظیموں کی مدد بھی کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں را کے معاونت سے چلنے والے 6 دہشتگردوں کے ایک گروپ کا پتہ لگایا گیا جس کا 29 جون 2020 کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج حملے میں تعلق تھا اور وہ پاکستان میں دہشتگرد سرگرمیاں انجام دینے کے علاوہ مختلف دہشتگرد گروہوں کو خودکش جیکٹس بھی فراہم کرنے میں ملوث ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ 2 را فرنٹ مین (عبدالواحد اور عبدالقادر سمیت 4 دہشت گرد (افغان شہری) بے نقاب ہوئے ہیں، یہ نیٹ ورک علما، پولیس حکام اور معروف شخصیات کے قتل میں بھی ملوث ہے جبکہ را کی جانب سے دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے بھاری رقم ادا کی گئی جس میں (خود کشی کے لیے ایک کروڑ پاکستانی روپے، وی بائڈ کے لیے ایک کروڑ پاکستانی روپے، آئی ای ڈی کے لیے 10 لاکھ اور ٹارگٹ کلنگ کے لیے 10 لاکھ روپے) شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی فورسز نے بڑے پیمانے پر خودکش جیکٹس، آئی ای ڈی، دھماکا خیز مواد، ہتھیار اور گولہ بارود قبضے میں بھی لیا ہے۔

دوران پریس کانفرنس ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس را کی جانب سے ٹی ٹی پی کمانڈرز کو ہتھیاروں، گولہ بارود آئی ای ڈیز فراہم کرنے کے ثبوت بھی ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ را ایجنٹس خیبرپختونخوا میں قبائلیوں کو اس پر اکسانے میں مصروف پائے گئے کہ وہ تربیت کے لیے فائٹرز کو افغانستان بھیجیں، اس سلسلے میں دری میں موجود خط واضح کرتا ہے کہ را کے سہولت کار نے اپنے دورے کے دوران وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں آئی ای ڈیز اور ہتھیار فراہم کیے۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق بھارت الطاف حسین گروپ کو بھی ہتھیار اور گولہ بارود فراہم کر رہا ہے، ایک موقع پر الطاف حسین گروپ کو 6 لاکھ 20 ہزار ڈالر مالیت کے ہتھیار فراہم کیے گئے، اس سلسلے میں اجمل پہاڑی کا اعترافی بیان موجود ہے۔

بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی تربیت

انہوں نے بتایا کہ ایسے کثیر مقصدی بیس کیمس کی موجودگی کے ثبوت ہیں جنہیں بھارت کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے دہشت گردوں کی تربیت، پناہ گاہ اور انہیں لانچ کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا۔

میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسیز اس طرح کے 87 دہشت گرد گروپس چلا رہی ہیں جس میں سے 66 افغانستان میں موجود ہیں جبکہ 21 بھارت میں ہیں، سابق بھارتی سفارتکار اور ایک بھارتی فوج کے جنرل نے افغانستان میں حاجی گک کے علاقے میں بلوچ عسکریت پسند تربیت گروپ کا دورہ کیا، اس سلسلے میں دری میں موجود خط میں لکھا گیا کہ کیمپ میں 150 عسکریت پسند موجود تھے۔

مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈوزیئر پیش کیا گیا—اے پی
مشترکہ پریس کانفرنس میں ڈوزیئر پیش کیا گیا—اے پی

انہوں نے بتایا کہ ایک اور واقعے میں بھارت نے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے لیے سرحد لیوا قندھار کے علاقے میں کیمپ قائم کرنے کے لیے 3 کروڑ ڈالر دیے، دری میں موجود خط بتاتا ہے کہ را ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی کے لیے ذمہ دار ہے اور اس سلسلے میں 4 ہیلی کاپٹرز استعمال کیے گئے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اجمل پہاڑی نے اعتراف کیا کہ بھارت نے شمالی اور شمال مشرقی بھارت میں دیرادھن اور ہریانہ میں الطاف حسین گروپ کے عسکریت پسندوں کے لیے 4 تربیتی کیمپ قائم کیے جبکہ تربیتی دورانہ 15 دن سے 4 ماہ تک تھا، ساتھ ہی یہ بھی تصدیق ہوئی کہ 40 الطاف حسین گروپ کے دہشت گردوں نے بھارت میں تربیت حاصل کی جنہوں نے نئی دہلی تک سفر کے لیے تیسرے ملک کا استعمال کیا۔

دہشت گردی کے واقعات

میجر جنرل بابر افتخار نے دہشت گردی کے ان واقعات پر روشنی بھی ڈالی جس کی تحقیقات میں را کے براہ راست ملوث ہونے کے ثبوت ملے۔

انہوں نے بتایا کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف نے 11 مئی 2019 کو گوادر میں پی سی ہوٹل پر حملہ کیا جس میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ 5 بے گناہ شہری جان سے گئے، را افسر انوراگ سنگھ نے اس حملے کی منصوبہ بندی کی جبکہ 5 لاکھ ڈالر را کی جانب سے حملے کے لیے فراہم کیے گئے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ حملہ آور حمل نواز نے افغان فون نمبر (93794087914+) کا استعمال کیا اور وہ حملے کے دوران بھارتی فون نمبر (93794087914+) سے رابطے میں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حملے کا ماسٹر مائنڈ ڈاکٹر اللہ نذر اور اسلم اچھو تھے اور ان دونوں نے جعلی افغان پاسپورٹس پر بھارت کا سفر کیا، یہی نہیں بلکہ اسلم اچھو بھارتی ہسپتال میں داخل ہے جبکہ اس نے عبدالحمید کے کور نام کے ساتھ سفر کیا، اس کے علاوہ اس کے پاس پورٹ پر بھارت کی جانب سے ڈبل اینٹری ویزا اسٹیمپ بھی موجود ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا ڈاکٹر اللہ نظر نے کور نام حاجی نبی کے تحت جعلی دستاویزات کے ذریعے بھارت کا سفر کیا، وہ را اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کے درمیان مرکزی ہیلپ لائن کا کام کرتا ہے، اس سلسلے میں اس کی را ہینڈلرز کے ساتھ 17 آڈیو کلپس اس کے را سے تعلق کو ثابت کرتی ہیں، اسی طرح وہ بھارتی خفیہ ایجنسی کے ایک افسر سے ہدایات لیتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 26 اکتوبر 2017 کو پشاور میں زرعی یونیورسٹی پر حملے کی تحقیقات میں اے پی ایس حملے کے ماسٹر مائنڈز آئے، را نے یونیورسٹی پر حملے کے لیے 3 سہولت کاروں کا استعمال کیا جس میں ملک فریدون بھی شامل تھا جو اے پی ایس حملے کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا، ملک فریدون اے پی ایس حملے کے فوری بعد جشن منانے کےلیے جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے چلا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جنگی قیدی ابھی نندن سے متعلق بیان میں تاریخ مسخ کی گئی، میجر جنرل بابر افتخار

میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ اس نے 2017 میں طبی علاج کے لیے بھارت کا بھی دورہ کیا جہاں یہ پرائیمس ہسپتال میں داخل رہا، اس کا نام مریضوں کی فہرست میں ہونا، ہسپتال کے اٹینڈنٹ اور را ہینڈلر امرجیت سنگھ کے ساتھ تصاویر اس کے را سے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔

دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ زرعی یونیرسٹی کے حملہ آوروں نے حملے کے دوران مختلف افغان نمبروں کے ساتھ رابطہ رکھا اورراہ راست ویڈیوز اپنے ہینڈلرز کو پہنچاتے رہے جنہیں افغان آئی پی ایڈریس سے اپ لوڈ کیا گیا۔

ترجمان پاک فوج کے مطابق الطاف حسین کے ساتھ را کے سربراہ اجیت چترویدی اور وکرم سوتھے کے ساتھ ملاقاتوں کی سرفراز مرچنٹ اور محمد انور نے اپنے بیانات میں توثیق کی جبکہ حال ہی میں سیکیورٹی فورسز نے کراچی میں را سے منسلک سلیپر سیل بھی پکڑا، جس کے ساتھ ہی گینک کے 13 افراد کو پکڑا گیا اور انہیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا جبکہ اس نیٹ ورک کو چلانے والا مرکزی ملزم محمود صدیقی مفرور اور بھارت میں رہائش پذیر ہے، اس سلسلے میں 2 جے آئی ٹیز بنائی گئی ہیں اور تحقیقات جاری ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 11 مئی 2020 میں پشاور پولیس آئی ای ڈی حملے کا نشانہ بنای جس کے نتیجے میں 2 پولیس اہلکار اور 3 دیگر افراد زخمی ہوئی، یہ حملہ را کے 2 فرنٹ مین (نور محمد اور ذبیح اللہ) کی جانب سے بنایا گیا تھا جو جلال آباد میں بھارتی سفارتخانے سے آپریٹ کرتے ہوئے پائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ نیٹ ورک کو پکڑنے سے کچھ اہم مقامات پر مستقبل میں ہونے والے حملوں کی منصوبہ بندی کو روکا گیا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ جون 2020 میں جلال آباد میں بھارتی قونصل خانے کے ملازم 3 را فرنٹ مین (حاجی حبیب اللہ، حاجی عزیز اللہ اور حاجی بیدار) نے 6 جماعت الاحرار کے دہشت گردوں (3 پاکستانی اور 3 افغان شہریوں) کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ پاکستان میں اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنک کریں، مذکورہ نیٹ ورک ماضی میں پشاور میں بھی مختلف ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھا، اس کے ساتھ ساتھ اس کا 2016 میں مردان جوڈیشل کمپلیکس پر خودکش حملے میں بھی تعلق تھا۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ رواں سال 14 اگست کو پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھارت کی جانب سے بڑے دہشت گرد منصوبے کو ناکام بنایا، کابل سے آپریٹ کرنے والا بھارتی خفیہ ایجنسی کا افسر میجر فرمین داس حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، اس نے مائنز، راکٹس اور دھماکا خیز مواد کی نقل و حمل کا انتظام کیا تھا، جسے برآمد کرلیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ یہ نیٹ ورک حب، مستونگ، کوئٹہ اور سہراب میں را کے کہنے پر 7 دہشت گرد حملے پہلے بھی کرچکا تھا۔

گلگت-بلتستان اور آزاد کشمیر میں عدم استحکام کی بھارتی کوششیں

انہوں نے کہا کہ بھارت آزاد جموں و کشمیر اور گلگت-بلتستان کو غیر مستحکم کرنے کے جارحانہ انداز میں خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے بھی شواہد موجود ہیں کہ را عام شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے آزاد جموں و کشمیر میں آئی ای ڈیز لگانے میں ملوث ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جنوری 2016 کے بعد سے 60 آئی ڈیز لگائے گئے تھے ان میں سے 38 پھٹے جس کے نتیجے میں 13 شہری اور 46 فوجی اہلکار جاں بحق ہوئے جبکہ بقیہ 22 آئی ای ڈیز کو کامیابی کے ساتھ نیوٹرل کردیا گیا تھا ‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’نو وائس نوٹز موجود ہیں جس سے بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے افسران کی ملوث ہونے کی تصدیق ہوتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے ہی ایک وائس نوٹ میں ایک بھارتی افسر آئی ڈی لگانے کے طریقہ کار کی وضاحت کر رہے تھے‘۔

مزید پڑھیں: بھارتی فوج کی خفت مٹانے کیلئے ایل او سی پر فائرنگ و گولہ باری، 5 شہری، ایک جوان شہید

انہوں نے کہا کہ ’را اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ کے لیے ایک نیٹ ورک کے قیام کی کوشش کر رہی ہے جس میں 5 سے 8 کروڑ تک کے انعامات ہیں‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کو صوبائی حیثیت دینے کے بارے میں پاکستان میں تبادلہ خیال کے بعد نئی دہلی میں وزارت داخلی امور میں ایک اجلاس ہوا جس میں عہدیداروں نے ’منفی رد عمل کو متحرک کرنے کے طریقہ کار‘ پر تبادلہ خیال کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طریقہ کار میں ’کشمیر اور گلگت بلتستان میں مختلف تخریبی کاروائیاں کرنے کے لیے دشمن عناصر کو متحرک کرنا، بڑے عوامی اجتماعات پر دہشت گردانہ حملے کرنا اور آزاد جموں و کشمیر میں کسی قوم پرست یا مذہبی رہنما کا قتل شامل تھا۔

معاشی جارحیت

انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان پر معاشی جارحیت کے لیے فورم کی سیاست کرتے ہوئے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ سے باہر نکلنے کی پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی حیثیت کو کم کرنے کے لیے (فروری سے اپریل 2018 تک) کس طرح وسیع پیمانے پر لابنگ کی گئی جس کے نتیجے میں جون 2018 میں ہم گرے لسٹ پر آئے‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں