امریکا کا افغانستان سے فوج کے انخلا کا اعلان، طالبان کا خیرمقدم

اپ ڈیٹ 19 نومبر 2020
افغانستان میں 15 جنوری کے بعد امریکا کے فوجیوں کی تعداد 2500 رہ جائے گی—فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں 15 جنوری کے بعد امریکا کے فوجیوں کی تعداد 2500 رہ جائے گی—فوٹو: اے ایف پی
جوبائیڈن کے صدر کا منصب سنبھالنے سے قبل افغانستان نے 2 ہزار فوجی واپس ہوں گے—فوٹو: اے ایف پی
جوبائیڈن کے صدر کا منصب سنبھالنے سے قبل افغانستان نے 2 ہزار فوجی واپس ہوں گے—فوٹو: اے ایف پی

افغان طالبان نے پینٹاگون کی جانب سے تقریباً 2 ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان سے واپس بلانے کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک اچھا قدم ہے جس سے ملک میں جاری طویل تنازع کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیرونی جنگوں کو ختم کرنے کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے 20 سالہ جنگ کے بعد افغانستان اور عراق سے اپنے فوجیوں کی تعداد کو کم کریں گے۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے فوجیوں کے جلد بازی میں انخلا کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے، نیٹو چیف کی تنبیہ

افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ ایک اچھا قدم ہے اور دونوں ممالک کے شہریوں کے مفاد میں ہے’۔

افغانستان میں امریکا کے سیکڑوں فوجی ہلاک ہوئے—فوٹو: اے ایف پی
افغانستان میں امریکا کے سیکڑوں فوجی ہلاک ہوئے—فوٹو: اے ایف پی

ان کا کہنا تھا کہ ‘جتنی جلدی بیرونی فورسز واپس چلی جائیں گی اس قدر ہی جلد جنگ کا خاتمہ ہوگا’۔

دوسری جانب ناقدین نے امریکا کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے طالبان کی حوصلہ افزائی ہوگی اور 2001 سے حاصل کی گئیں کامیابیوں کا خاتمہ ہوگا۔

پینٹاگون کے اس فیصلے کے تحت 15 جنوری تک افغانستان سے 2 ہزار فوجیوں کا انخلا ہوگا جبکہ اس کے ایک ہفتے بعد نومنتخب صدر جو بائیڈن ممکنہ طور پر اپنا منصب سنبھال لیں گے۔

افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان سرزمین پر فوجی مداخلت کو ختم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے اور رواں برس 29 فروری کو طالبان کے ساتھ معاہدے میں اس پر اتفاق کیا گیا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے مئی 2021 تک افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں موجود تمام امریکی فوجی کرسمس تک اپنے گھروں پر ہونے چاہئیں، ٹرمپ

معاہدے کے تحت طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی فورسز پر حملہ نہیں کریں گے اور القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کو دوبارہ ابھرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

امریکی فوج کے انخلا پر تشویش

جرمنی نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے تیزی سے انخلا کے فیصلے پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے امن کی کوششوں پر اثر پڑ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ شمالی افغانستان میں جرمنی کے سیکڑوں فوجی موجود ہیں۔

جرمنی کے وزیر خارجہ ہیکو ماس کا کہنا تھا کہ 'ہمیں تشویش اس بات پر ہے کہ امریکا کے اعلان سے افغانستان میں ہونے والے امن مذاکرات پر کیا اثر پڑ سکتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں ایسی اضافی رکاوٹیں کھڑی نہیں کرنی چاہیے، جو خاص طور پر افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے باعث ہوں گی'۔

افغان حکومت کے عہدیداروں نے امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے کو جلد بازی قرار دیا جس کے تحت 15 جنوری کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2 ہزار 500 تک محدود ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے فوجیوں کا انخلا اب بھی ’مشروط‘ ہے، امریکی جنرل

افغان قومی سلامتی کونسل کے ترجمان رحمت اللہ آندار کا کہنا تھا کہ 'افغان سیکیورٹی اور ڈیفنس فورسز پہلے ہی 96 فیصد کارروائیاں آزادانہ طور پر کر رہی ہیں اور اپنے دشمنوں کے خلاف ملکی دفاع کے لیے تیار ہے'۔

امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے بعد پینٹاگون نے افغانستان میں مختلف بیسز میں تعینات کئی فوجیوں کو واپس بلالیا اور ہزاروں فوجیوں کو دوسرے ملک منتقل کردیا۔

خیال رہے کہ افغانستان میں دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے مقصد کے تحت پہلی مرتبہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کا آغاز 12 ستمبر کو ہو چکا ہے۔

دوحہ میں ہونے والے تاریخی امن مذاکرات کی افتتاحی تقریب کا آغاز قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے کیا، جس میں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو اور افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد شریک تھے۔

مذاکرات میں فریقین ان مشکل معاملات سے نمٹنے کی کوشش کریں گے جس میں مستقل جنگ بندی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور ہزاروں طالبان جنگجو اور ملیشیا کا غیر مسلح ہونا شامل ہے، جس میں سے کچھ حکومت کے ساتھ اتحاد میں شامل ہیں۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن عمل کے تحت مذاکرات کے آغاز کے باوجود افغانستان میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے اور آئے روز دھماکے اور حملے ہوتے رہے ہیں۔

بین الافغان مذاکرات کی افتتاحی تقریب میں افغان حکومت اور امریکا سمیت دیگر اتحادیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، تاہم طالبان نے مذاکرات کی میز پر آنے سے قبل عارضی جنگ بندی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔

مزید پڑھیں: امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جھڑپیں جاری

افغان حکومت کی جانب سے امن عمل کی سربراہی کرنے والے عبداللہ عبداللہ نے تجویز دی کہ طالبان اپنی جنگجو قیدیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی کی پیشکش کرسکتے تھے، 'یہ ان کے خیالات میں سے ایک خیال یا ایک مطالبہ ہوسکتا تھا'۔

خیال رہے کہ 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 20 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہترین موقع قرار دیا گیا تھا۔

ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ 29 فروری کو معاہدے کے چند ہفتوں میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔

امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔

تبصرے (0) بند ہیں