دنیا کے سب سے بڑے ویکسین تیار کرنے والے ادارے کے سربراہ کو ایک مسئلے کا سامنا ہے۔

سیرم انسٹیٹوٹ آف انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو ادار پونے والا کو گلاس وائلز سے لے کر اسٹین کے ٹینک سمیت ہر چیز کے لیے 85 کروڑ ڈالرز درکار ہیں۔ تاکہ دنیا کے غریب ممالک کے لیے کورونا وائرس ویکسینز کی تیاری شروع کرسکیں۔

ادار پونے والا اپنی کمپنی کے 30 کروڑ ڈالرز خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں مگر انہیں اب بھی 55 کروڑ ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے اور اس کے لیے وہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس سے رجوع کرچکے ہیں۔

بل گیٹس اور اداے پونے والا کی واقفیت برسوں پرانی ہے اور مائیکرو سافٹ کے بانی اب تک اربوں ڈالرز ترقی پذیر ممالک میں ویکسینز کی فراہمی کے لیے خرچ کرچکے ہیں، جس کے لیے وہ ادویات ساز کمپنیوں کے عہدیداران سے لے کر مارکیٹ تک، ہر شعبے کے لیے کام کررہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ادار پونے والا سے موسم گرما میں بات کرنے کے بعد بل گیٹس نے بل اینڈ ملینڈا گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے 15 کروڑ ڈالرز پروڈکشن کے لیے فراہم کرنے کا وعدہ کیا جبکہ ستمبر میں اس رقم کو دوگنا کرنے کا اعلان کیا۔

یہ 11 ارب ڈالرز کے ایک منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد ڈیڑھ سو سے زائد ممالک کے لیے کورونا وائرس ویکسینز کے حصول کے لیے بنیاد کو بنانا تھا، تاہم یہ لاگت ڈوزوز کی تیاری میں مزید بڑھنے کا امکان ہے۔

اس مقصد کے لیے فنڈز کے لیے 2 عالمی ادارے سربراہی کررہے ہیں جن کو بنانے میں بل گیٹس نے عالمی ادارہ صحت کے ساتھ مدد فراہم کی تھی اور وہ گیٹس فاؤنڈیشن پر انحصار کرتے ہیں۔

پس پردہ کام کرتے ہوئے بل گیٹس اور ان کا 50 ارب ڈالرز کا ادارہ مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

ایک حالیہ انٹرویو میں بل گیٹس نے بتایا 'ہم جانتے ہیں کہ کس طرح حکومتوں کے ساتھ کام کرنا ہے، ہم جانتے ہیں کہ کس طرح کمپنیوں کے ساتھ کام کرنا ہے، ہم نے اس منظرنامے کے بارے میں سوا تھے، ہمیں اہم ترین بنیادی کردار ادا کرنے کے لیے مہارت اور تعلقات کی ضرورت ہے'۔

پہلے ویکسینز کی ریگولیٹری منظوری کی ضرورت ہے اور اس کے بعد سوال پیدا ہوگا کہ عالمی آبادی تک اسے کیسے برق رفتاری سے پہنچایا جائے۔

اب تک غریب ممالک تک ویکسین کی کم قیمت میں فراہمی، تیاری اور تحقیق کے لیے صرف 3.6 ارب ڈالرز کے فنڈز جمع ہوئے ہیں۔

ویکسین فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والی 3 میں سے ایک کمپنی آسترازینیکا نے حال ہی میں اپنی ویکسین کے متاثرکن ڈیٹا کا اعلان کیا ہے جو اوسطاً 70 فیصد تک موثر ہے مگر افادیت کو 90 فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔

ابھی یہ معلوم نہیں کہ دیگر 2 کمپنیوں کی ویکسینز کس حد تک موثر ہوں گی اور کسی ویکسین کے اربوں ڈوز کم قیمت اور بروقت حاصل کرنا بھی مشکل کام ہے کیونکہ امریکا سمیت امیر ممالک اپنے شہریوں کے لیے ویکسینز کو خرید رہے ہیں۔

اس مقصد کے لیے حالیہ مہینوں نے بل گیٹس نے اپنی کوششوں کو تیز کیا ہے اور ادویات ساز کمپنیوں کے حکام کے ساتھ آن لائن ایونٹس کا انعقاد کیا، عالمی رہنماؤں سے فنڈز کے حصول کے لیے فرانس کے صدر، جرمن چانسلر، یورپی کمیشن کے صدر اور یو اے اے کے ولی عہد سے رابطہ کیا۔

امریکا میں وہ مسلسل ڈاکٹر انتھونی فاؤچی سے رابطے میں ہیں جو عرصے سے ویکسین مہمات میں تعاون کررہے ہیں جبکہ دیگر لوگوں سے بھی رابطے بڑھائے اور کروڑوں ڈوز کی فراہمی کے لیے میکنسی اینڈ کمپنی کنسلٹنٹ کو کروڑوں ڈالرز فراہم کیے۔

اگر یہ منصوبہ جس کے لیے بل گیٹس سرمایہ اور توجہ دونوں فراہم کررہے ہیں اور دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو کورونا سے تحفظ فراہم کرنے میں کامیاب ہوگئے، اس سے ان کے فلاحی کام کی حکمت عملیوں مزید مضبوط ہوں گی۔

اس وقت عالمی سطح پر ویکسین معاہدوں میں غریب ممالک کے صرف 20 فیصد شہریوں کو اگلے سال کے آخر تک ویکسین مل سکے گی، جبکہ کچھ ماڈلز کا تخمینہ ہے کہ دنیا بھر کو ویکسین کی فراہمی 2024 تک ممکن نہیں ہوسکے گی۔

نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی کے پروفیسر بروک بیکر کے مطابقق بل گیٹس کی طویل المعیاد حکمت عملیوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ سپلائی کے کارپوریٹ کنٹرول میں مرکزی کردار حاصل کرلیں، مگر ایک وبا کے دوران مساوی بنیادوں پر ویکسین کی فراہمی ایک حقیقی مسئلہ ہے۔

مگر ترقی پذیر ممالک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان سے ویکسینز کی تقسیم کے حوالے سے مشاورت ہی نہیں کی جارہی۔

فروری میں بل گیٹس اور ان کے ادارے نے وبا کے ردعمل پر ایک منصوبے کی تیاری پر کام شروع کیا تھا اور 2 ہفتے بعد ویکسین الائنس گاوی (جس کی تشکیل کے لیے بل گیٹس کے ادارے نے مدد کی تھی) کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر سیٹھ بیکرلے بل گیٹس سے ملے۔

ناشتے پر ملاقات کے دوران بل گیٹس اور انہوں نے غور کیا کہ کسس طرح ترقی پذیر ممالک کو کووڈ 19 ویکسینز فراہم کی جاسکتی ہیں۔

مارچ میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا کو عالمی وبا قرار دیئے جانے کے بعد بل گیٹس نے 12 فارماسیوٹیکل عہدیداران سے آن لائن ملاقات کی، جس میں فائزر اور جانسن اینڈ جانسن کے سربراہان بھی امل تھے۔

10 کروڑ ڈالرز فراہم کرنے ابتدائی اعلان کے بعد بل گیٹس نے کولیشن آف ایپیڈیمک پریپرڈینس انوویشن کی تشکیل میں مدد فراہم کی، جس کا مقصد ادویات اور تجرباتی ویکسیز کے لیے سرمایہ فراہم کرنا تھا۔

یہ اتحاد اور گاوی اس وقت عالمی ادارہ صحت کے ساتھ کورونا وائرس ویکسین کی کوششوں کی قیادت کررہے ہیں۔

گیٹس فاؤنڈیشن نے تدریسی محققین کو بھی سرمایہ فراہم کیا اور ادویات ساز کمپنیوں میں بھی سرمایہ کاری کی۔

ان میں سے ایک جرمن کمپنی بائیو این ٹیک ہے جسے ستمبر 2019 میں ساڑھے 5 کروڑ ڈالرز کا سرمایہ فراہم کیا گیا اور یہی وہ کمپنی ہے جس نے فائزر کے ساتھ مل کر ویکسین تیار کی ہے جسے بیماری سے تحفظ کے لیے 95 فیصد تک موثر قرار دیا گیا ہے۔

گیٹس فاؤنڈیشن اور دیگ اداروں کا کہنا ہے کہ انہیں فکر ہے کہ ادویات ساز کمپنیاں عالمی ادارہ صحت کے تعاون نہیں کریں گی، اسی لیے وہ عالمی ادارہ صحت کے پروڈکٹس ریگولیٹ کرنے کے کردار پر کام کررہے ہیں۔

بل گیٹس کے مطابق 'ہم ہمیشہ ڈبلیو ایچ او سے رابطے میں رہتے ہیں، مگر یہاں وبا کی روک تھام کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے تشخیص، ادویات اور ویکسینز کی ضرورت ہے، جو عالمی ادارے کا شعبہ نہیں'۔

مارچ میں بل گیٹس نے ادویات ساز کمپنیوں پر زور دیا تھا کہ وہ تیز رفتاری سے کام کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں اور دوا کے مرکبات کی لائبریریز کھولنے کے ساتھ پروڈکشن کی ذمہ داریاں شیئر کریں۔

آکسفورڈ یونیورسٹی نے کہا تھا کہ وہ اپنے کام کے رائلٹی فری لائسنسز پروڈکشن کمپنیوں کو فراہم کرے گی، مگر اب جب چند موثر ترین ویکسینز میں سے ایک ویکسین پر کام مکمل ہورہا ہے تو یونیورسٹی کے اندر یہ بحث ل رہی ہے کہ اسے اپنی ٹیکنالوجی دنیا بھر کی کمپنیوں کو منتقل کرنی چاہیے یا نہیں۔

سر جان بیل آکسفورڈ کی ہیلتھ ریسرچ اسٹریٹیجز کے سربراہ ہیں اور گیٹس فاؤنڈیشن کی ایڈوائزری کمیٹی کا حصہ ہیں اور اس حوالے بل گیٹس نے بتایا 'ہم نے آکسفورڈ کوو بتایا، آپ کو ایک شراکت دار تلاش کرنا اہیے جو جانتا ہوں کہ ٹرائلز پر کیسے کام کیا جاتا ہے'۔

بل گیٹس کی جانب سے مالی معاونت فراہم کرنے کے بعد آکسفورڈ نے آسترازینیکا، سیرم انسٹیٹوٹ آف انڈیا کا انتخاب کیا جو ویکسین تیار کریں گی۔

امریکا اور دیگر ممالک نے ویکسین بنانے والوں سے الگ الگ معاہدے کیے ہیں اور وہ بھی ریگولیٹری منظوری سے قبل، جس سے مساوی بنیادوں پر تقسیم کی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔

ویکسین الائنس میں شامل آسترازینیکا، نووا ویکس اور سنوفی نے ممالک کے ساتھ مساوی بنیادوں پر ویکسین فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔

بھارت اور جنوبی افریقہ نے حال ہی میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس سے متعلق کاپی رائٹس کا نفاذ نہ کرے تاکہ ویکسینز بڑی کمپنیوں تک محدود نہ رہیں بلکہ مقامی سطح پر ان کی پروڈکشن ہوسکے۔

پاکستان، کینیا، موزمبیق اور سوازی لینڈ نے حال ہی میں اس مطالبے پر دستخط کیے ہیں جبکہ دیگر درجنوں ممالک نے اس پر تعاون کے جذبے کا اظہار کیا ہے۔

مگر بل گیٹس اور متعدد طبی ماہرین کے خیال میمں بیشتر کمپنیوں نے یکساں رسائی کے حوالے سے اھے اقدامات کیے ہیں، جیسے غیرمنافع بخش قیمتیں اور اپنی ٹیکنالوجی کے لائسنس دیگر مینوفیکچررز کو فراہم کرنا۔

انہوں نے زور دیا کہ ادویات ساز کمپنیاں نئی مصنوعات کی تیاری کے لیے مہنگے عمل کو اختیار نہ کریں اور ویکسین کے معیار اور تحفظ کو یقینی بنائیں۔

بل گیٹس کی کوششوں کے حوالے سے برطانیہ، یورپی یونین اور دیگر نے عطیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ چین نے بھی اکتوبر میں تعاون کا وعدہ کیا، مگر اپنے ملک میں وہ کوئی پیشرفت نہیں کرسکے۔

بل گیٹس نے ٹرمپ انتظامیہ اور کانگریس سے 8 ارب ڈالرز کا مطالبہ کیا تھا جو غریب ممالک کے لیے گلوبل ویکسین کوششوں، ادویات اور تشخیص کے درکار فنڈز کا 50 فیصد حصہ ہے۔

انہوں نے نجی طور پر نائب صدر مائیک پینس، ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی اور دیگر کے سامنے اپنے کیس کو پیش کیا۔

مگر ڈونلڈ ٹرمپ کا عالمی ردعمل میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں اور انہوں نے جولائی میں واضح کردیا تھا کہ امریکا عالمی ادارہ صحت سے علیحدگی اختیار کررہا ہے۔

بل گیٹس کے مطابق 'لوگ اس بات کے عادی نہیں کہ امریکا قدم نہ بڑھائے، مگر امریکا اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا'۔

تاہم اب امریکا کے منتخب ہونے والے نئے صدر جو بائیڈن کا موقف اس حوالے سے مختلف ہے اور وہ ڈبلیو ایچ او میں واپسی کا وعدہ کرچکے ہیں۔

گاوی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر بیکرلے کے مطابق ہم مساوی رسائی کے لیے اپنی ہر ممکن بہترین کوشش کررہے ہیں۔

انہوں نے بتایا 'کیا ہم پوری دنیا کو ویکسینز کی مساوی رسائی پر بات کرنے کے لیے اکٹھا کرکے ہیں؟ کیا ہم اس مقصد کے لیے مناسب حد تک فنڈز اکٹھا کرچکے ہیں؟ یہ سب ٹھیک ہے'۔

انہوں نے اور ان کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ ان کی کوششوں کا ساتھ دینے والے ممالک کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جبکہ آسترازینیکا کے ساتھ 2 اور ادویات ساز کمپنیوں کے ویکسینز ٹرائلز آگے بڑھے ہیں اور گیٹس فاؤنڈیشن کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے لیے ویکسینز کی دوسری لہر کے لیے بھی سرمایہ فراہم کیا جارہا ہے، اب اتنی رقم موجود ہے جو منظوری کے بعد ڈوز خریدنے کے عمل کا آغاز کرسکے۔

ان کو توقع ہے کہ وہ مقصد کے لیے حصول کے لیے درکار اربوں ڈالرز کو اکٹھا کرسکیں گے۔

بل گیٹس کے مطابق میں عالمی ویکسین کوششوں کے فیصلہ کرنے کے لیے ایک سادہ طریقہ کار کو اپنانا چاہیے کہ ہم کب تک وبا کو روک سکیں گے، یہی وہ چیز ہے جس کو پیمانہ بنانا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں