خیبرپختونخوا: پولیو ٹیم کے ہمراہ ڈیوٹی دینے والا پولیس اہلکار قتل

اپ ڈیٹ 03 دسمبر 2020
ضلعی پولیس افسر بنوں وسیم ریاض نے واقعے کی تصدیق کر دی---فوٹو: شٹر اسٹاک
ضلعی پولیس افسر بنوں وسیم ریاض نے واقعے کی تصدیق کر دی---فوٹو: شٹر اسٹاک

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں انسداد پولیو مہم کی ٹیم کے ہمراہ ڈیوٹی دے کر واپس آنے والے پولیس اہلکار کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

ضلعی پولیس افسر بنوں وسیم ریاض نے واقعے کی تصدیق کر دی۔

انہوں نے بتایا کہ واقعہ تھانہ ٹاؤں پولیس کی حدود میں پیش آیا جہاں مسلح افراد نے پولیس اہلکار پر فائرنگ کی۔

مزید پڑھیں: صوابی میں فائرنگ سے 2 پولیو ورکرز جاں بحق

وسیم ریاض نے بتایا کہ اے ایس آئی اختیار زمان ضلع میں جاری پولیو مہم کی ٹیم کے ہمراہ ڈیوٹی پر مامور تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حملے کے وقت وہ ڈیوٹی ختم کرکے واپس پولیس اسٹیشن جا رہے تھے۔

وسیم ریاض نے کہا کہ فائرنگ کے وقت اے ایس آئی پولیو ٹیم کے ساتھ نہیں تھا۔

ڈی پی او نے بتایا کہ حملے کے بعد حملہ آور فرار ہو گئے تاہم پولیس گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا: پولیو ٹیم پر حملہ، ایک اور پولیس اہلکار قتل

وسیم ریاض نے مزید بتایا کہ فائرنگ کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاہم پولیس نے تمام پہلوؤں سے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔

پولیو ٹیمز پر حملے

خیال رہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں پولیو مہم کے دوران ہیلتھ ورکرز پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں اور یہ حملے ملک سے پولیو کے خاتمے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

سال 2012 سے اب تک اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران 120 سے زائد لیڈی ہیلتھ ورکرز شہید ہوچکی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت کی شروع کی جانے والی پولیو مہم میں حصہ لیتے ہوئے قتل کی جانے والی ان ہیلتھ ورکرز کے اہلِ خانہ کو معاوضے کے حوالے سے سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

18 دسمبر 2012 کو پشاور، موچکو، کراچی کے علاقے گلشنِ بونیر اور راجہ تنویر کالونی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے واقعات پیش آئے تھے جس کے نتیجے میں 4 خواتین اور ایک مرد ہلاک ہوگئے تھے۔

مذکورہ واقعات میں جانی نقصان ہونے پر عالمی ادارہ صحت نے عارضی طور پر فیلڈ ورک بھی روک دیا تھا۔

پشاور میں 28 مئی 2013 کو پولیو ورکرز پر حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں، اس کے بعد 16 جون کو صوابی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں 2 پولیو رضاکار زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

بعد ازاں 13 دسمبر کو ضلع جمرود میں فائرنگ کے باعث ایک پولیو ورکر ہلاک ہوگیا تھا۔

اسی طرح کراچی کے علاقے قیوم آباد میں 21 جنوری 2014 کو انسدادِ پولیو مہم کے دوران پولیو کی ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکروں کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس کے بعد 9 دسمبر 2014 کو پنجاب کے شہر فیصل آباد میں نامعلوم افراد نے پولیو ویکسی نیشن ٹیم کے ایک رکن کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

30 نومبر 2015 کو ضلع صوابی ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈسٹرکٹ پولیو کوآرڈینیٹر ڈاکٹر یعقوب ہلاک اور ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے بعد 24 مئی 2017 کو بھی بنوں میں بھی پولیو رضاکار پر فائرنگ کا واقعہ سامنے آیا اور ایک پولیو رضاکار کو قتل کردیا گیا تھا۔

23 اپریل 2019 کو خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں میں نامعلوم افراد نے پولیو مہم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

24 اپریل 2019 کو خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر میں ہونے والے حملے میں ایک اور پولیس اہلکار کو قتل کردیا گیا تھا۔

25 اپریل 2019 کو بلوچستان میں پولیو کی ٹیم پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک خاتون رضاکار ہلاک اور ایک زخمی ہوگئی تھیں۔

18 دسمبر 2019 کو صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر دیر میں نامعلوم مسلح افراد نے پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں 2 اہلکار شہید ہوگئے تھے۔

جولائی 2020 میں صوابی کے علاقے پَرمولی میں بغیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کرنے والی پولیو ٹیم پر حملے میں 2 خاتون ورکر جاں بحق جبکہ ہوگئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں