خیبرپختونخوا: پولیو ٹیم پر حملہ، ایک اور پولیس اہلکار قتل

اپ ڈیٹ 24 اپريل 2019
پولیس اہلکار پولیو ٹیم کی سیکورٹی پر مامور تھا—تصویر: شٹراسٹاک
پولیس اہلکار پولیو ٹیم کی سیکورٹی پر مامور تھا—تصویر: شٹراسٹاک

خیبرپختونخوا: پولیو مہم کے حوالے سے پھیلی افواہوں کے بعد پولیو ٹیم پر مسلسل دوسرے روز ضلع بونیر میں ہونے والے حملے میں ایک اور پولیس اہلکار کو قتل کردیا گیا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیو ٹیم تور وارسک کے دور دراز علاقے میں گھر گھر جا کر بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کرنے والی بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے قطرے پلانے کی مہم میں مصروف تھی جب ان پر حملہ ہوا۔

اس حوالے سے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے عہدیدار نے بتایا کہ پولیس اہلکار پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور تھا جب ایک نامعلوم مسلح شخص نے ٹیم پر فائرنگ کردی جس سے پولیس اہلکار شدید زخمی ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: بنوں: پولیو ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار قتل

ان کا مزید کہنا تھا کہ زخمی پولیس اہلکار ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گیا جبکہ حملہ آور موقع سے فرار ہوگیا۔

حکام کے مطابق پولیس نے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے علاقے میں تلاشی کا عمل شروع کردیا ہے، اس کے علاوہ اس بات کی بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ آیا یہ معاملہ پولیو مہم کی وجہ سے پیش آیا یا اس کے پیچھے ذاتی دشمنی کارفرما تھی۔

اس سلسلے میں بیان جاری کرتے ہوئے کمشنر مالاکنڈ ریاض محسن نے بتایا کہ کانسٹیبل ظفرعلی کی کچھ ذاتی دشمنیاں بھی تھیں تاہم پولیس اس حوالے سے مزید تحقیقات کررہی ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بھی خیبر پختونخوا کے علاقے بنوں میں نامعلوم افراد نے پولیو مہم کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: افواہوں کے بعد انسداد پولیو مہم کو مشکلات کا سامنا

اس سے دو روز قبل صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے اسکول میں مبینہ طور پر پولیو ویکسینیشن کے بعد 75 بچوں کی حالت اچانک بگڑ گئی تھی، جنہیں ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جبکہ مشتعل افراد نے صحت مرکز میں توڑ پھوڑ کرکے اسے نذر آتش کردیا تھا۔

بعد ازاں پشاور کی مقامی عدالت نے انسداد پولیو مہم کے خلاف مبینہ طور پر پروپیگینڈا کرنے اور بچوں کی طبیعت خرابی کا ڈرامہ رچانے والے ملزم کو ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

پولیو مہم کے خلاف بھونڈے مفروضے

یہ بات مدِ نظر رہے کہ پولیو انتہائی موذی وائرس ہے، جو عام طور پر حفظان صحت کی غیرتسلی بخش صورتحال کے باعث منتقل ہوجاتا ہے، اس وائرس کا کوئی علاج نہیں، جس سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور اسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔

مغرب میں پولیو کا خاتمہ ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن پاکستان میں شدت پسندوں کی جانب سے حفاظتی ویکسین پر پابندی، طبّی عملے کو حملوں کا نشانہ بنانے اور اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے پولیو کا مرض ملک میں اب تک موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقے میں پولیو رضاکار قتل

یاد رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشنز کے ردعمل کے طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسند متعدد بار پولیو ویکسینیشن سینٹرز سمیت ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ پولیو کے قطرے پاکستانی بچوں کو بانجھ بنانے یا خفیہ معلومات اکٹھا کرنے کے لیے مغربی ممالک کا بہانہ ہیں۔

خصوصاً قبائلی علاقوں میں اس پریشان کن رجحان میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ابیٹ آباد کے قرب و جوار میں ایک پاکستانی فزیشن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے چلائی جانے والی ایک جعلی ہیپٹائٹس ویکسین مہم نے ہی امریکا کو مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کرنے میں مدد دی۔

پولیو رضاکاروں پر حملے

خیال رہے کہ پولیو ورکرز کی فرائض کی انجام دہی کے دوران پولیو ورکر کے قتل کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات سامنے آئے تھے۔

اس سے قبل 18 دسمبر 2012 کو پشاور، موچکو، کراچی کے علاقے گلشنِ بونیر اور راجہ تنویر کالونی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے نیتجے میں 4 خواتین اور ایک مرد ہلاک ہوگئے تھے۔

مذکورہ واقعات میں جانی نقصان ہونے پر عالمی ادارہ صحت نے عارضی طور پر فیلڈ ورک بھی روک دیا تھا۔

پشاور میں 28 مئی 2013 کو پولیو ورکرز پر حملے کے نتیجے میں ایک خاتون ہلاک ہوگئی تھیں، اس کے بعد 16 جون کو صوابی میں پولیو ٹیم پر فائرنگ کے نتیجے میں 2 پولیو رضاکار زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

بعدازاں 13 دسمبر کو ضلع جمرود میں فائرنگ کے باعث ایک پولیو ورکر ہلاک ہوگیا تھا ۔

اسی طرح کراچی کے علاقے قیوم آباد میں 21 جنوری 2014 کو انسدادِ پولیو مہم کے دوران پولیو کی ویکسین پلانے والے ہیلتھ ورکروں کی ٹیم پر فائرنگ کی گئی، جس کے نتجیے میں 3 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس کے بعد 9 دسمبر 2014 کو پنجاب کے شہر فیصل آباد میں نامعلوم افراد نے پولیو ویکسی نیشن ٹیم کے ایک رکن کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

30نومبر 2015 کو ضلع صوابی ایک مرتبہ پھر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ڈسٹرکٹ پولیو کوآرڈینیٹر ڈاکٹر یعقوب ہلاک اور ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے تھے۔

جس کے بعد 24 مئی 2017 کو بھی بنوں میں بھی پولیو رضاکار پر فائرنگ کا واقعہ سامنے آیا اور ایک پولیو رضاکار کو قتل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں