ڈینیئل پرل کیس: عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات کی تصدیق کروائیں گے، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2020
ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت 5 جنوری 2021 تک ملتوی کردی گئی—فائل/فوٹو: ڈان
ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت 5 جنوری 2021 تک ملتوی کردی گئی—فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس کی سماعت کے دوران وکیل کے دلائل پر ریمارکس دیے کہ عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات کی تصدیق کروائیں گے۔

جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ڈینیئل پرل قتل کیس پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی۔

ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ احمد عمر شیخ کی گرفتاری کے وقت اس سے بیگ برآمد ہوا، اس بیگ میں ای میلز، کیمرا، اسکینر اور چند تصاویر تھیں۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک لاش کی شناخت نہیں ہوئی تھی، وکیل

سماعت کے دوران جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ کوئی بھی نئی دستاویز پیش کرنے سے پہلے فریقین کو عدالت سے اجازت لینا ہوتی ہے اور جو دستاویزات دی گئی ہیں ابھی ہم وہ نہیں دیکھیں گے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ استغاثہ کے گواہان نے کہا کہ دو ای میلز کی گئیں لیکن آپ تو کافی زیادہ بتا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن دستاویزات کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ نا تو ٹرائل کورٹ نہ ہی ہائی کورٹ میں پیش کی گئیں، حیرانی کی بات ہے یہ دستاویزات سپریم کورٹ کی فائل میں کیسے آگئیں۔

جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئیں دستاویزات کی تصدیق کروائیں گے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 5 جنوری 2021 تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران ڈینیئل پرل کے والدین کے وکیل نے کہا تھا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے تک لاش کی شناخت نہیں ہوئی تھی جبکہ والدین نے کہا کہ عدالت خود شواہد کا جائزہ لے سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی این اے سے ڈینیئل پرل کی لاش کی شناخت ہوئی تھی، وکیل کا انکشاف

وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ عدالت اغوا اور قتل کے شواہد کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے، پوسٹ مارٹم رپورٹ سے مقتول کی عمر، قد اور لباس کی پہچان ہوئی جبکہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ٹرائل کے دوران آچکی تھی۔

انہوں نے عدالت عظمیٰ کو بتایا تھا کہ معاملہ ٹرائل کورٹ یا ہائی کورٹ کو بھیجا جا سکتا ہے اور سپریم کورٹ خود بھی شواہد کا جائزہ لے سکتی ہے تاہم دوبارہ مکمل ٹرائل کی ضرورت نہیں ہے۔

ڈینیئل پرل قتل کیس

یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے ملزمان 3 ماہ کیلئے زیرحراست

بعد ازاں حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔

عدالت نے مقدمے میں نامزد 4 ملزمان کی سزا کے خلاف دائر کردہ اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا۔

فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی درخواست

واضح رہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ وال اسٹریٹ جنرل کے صحافی کی قتل کی ویڈیو کی ایک سرکاری عہدیدار (پی ٹی وی کے ایک ماہر) سے تصدیق کروائی گئی تھی جبکہ اسے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔

چنانچہ جمع شدہ ثبوتوں اور خاص کر ملزم اور شریک ملزمان کے اعترافی بیانات کے تناظر میں ہائی کورٹ کی جانب سے سزا میں تبدیلی اور بریت پائیدار نہیں اور اسے کالعدم ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

اسی طرح فطری اور آزاد شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تاوان کا مطالبہ ملزم نے ہی کیا تھا اور ڈاکیومینٹری ثبوت سے یہ بات ثابت بھی ہوئی چنانچہ سزا میں تبدیلی اور بریت غیر قانونی ہے۔

اپیل میں کہا گیا تھا کہ ملزم ایسا کوئی مواد پیش نہیں کرسکا جو پروسیکیوشن کے ثبوتوں کے خلاف شک پیدا کرتا بلکہ شریک ملزمان نے ریمانڈ کے دوران ٹرائل جج کے سامنے اپنا جرم قبول کیا۔

عدالت عظمیٰ میں دائر اپیل میں کہا گیا تھا کہ ہائی کورٹ اس کیس کے سنگین عوامل سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ ملزم اور شریک ملزمان کی بریت اور سزائے موت میں تبدیلی کا فیصلہ انصاف کا قتل اور عدالت عظمیٰ کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں