چین کی سرکاری کمپنی سینوفارم کی تیار کردہ 2 کووڈ 19 ویکسینز میں سے ایک کو مارکیٹ میں فراہم کرنے کے لیے باضابطہ درخواست جمع کرادی گئی ہے۔

ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق چین کے ریگولیٹرز نے سینوفارم کی درخواست کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کمپنی کی کونسی کووڈ ویکسین کے لیے درخواست جمع کرائی گئی ہے۔

سینوفارم کی دونوں ویکسینز 2 مختلف انسٹیٹوٹ تیار کررہی ہیں، جن کے محفوظ ہونے اور افادیت کی آزمائش 10 ممالک میں جاری ہے۔

ان میں سے ایک کو متحدہ عرب امارات میں استعمال کی منظوری دی گئی تھی اور اسے 86 فیصد تک موثر قرار دیا گیا تھا۔

سینوفارم نے ویکسین کی منظوری کے لیے درخواست 25 نومبر کو متحدہ عرب امارات کی جانب سے ڈیٹا کی اشاعت سے پہلے دی تھی۔

سینوفارم نے اس حوالے سے ابھی کوئی موقف جاری نہیں کیا۔

شنگھائی سے تعلق رکھنے واقلے ویکسین ماہر ٹاؤ لینا نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ سینوفارم کی ویکسین کو مشروط منظوری آنے والے ہفتوں میں حاصل ہوجائے۔

انہوں نے کہا 'کووڈ ویکسین کی منظوری کی شرائط میں مختلف گروپس جیسے بچوں اور بزرگوں میں اس کے محفوظ ہونے اور افادیت جیسی شرائط ہوسکتی ہیں'۔

یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب برازیل میں ایک اور چینی کمپنی سینوویک کی تیار کردہ کورونا ویک ویکسین کو 13 ہزار افراد کے ٹرائلز میں بیماری سے بچاؤ کے لیے 50 فیصد سے زیادہ موثر دریافت کیا گیا۔

تاہم کمپنی کی جانب سے مکمل نتائج دیگر ٹرائلز کے مکمل ہونے کے بعد جاری کیے جائیں گے۔

برازیل کے Butantan انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر ڈیماس کوواس نے سینوویک ویکسین کو محفوظ قرار دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ اس وقت مارکیٹ میں سب سے محفوظ ویکسین ہے اور ہم اس کی افادیت کے لیے عالمی ادارہ صحت اور برازیلین ہیلتھ ریگولیٹری ایجنسی کی شرائط کو مدنظر رکھا۔

کورونا ویک کے حتمی ٹرائل کا آغاز برازیل میں جولائی میں ہوا تھا اور بعد ازاں ترکی اور انڈونیشیا تک توسیع دی گئی تھی۔

مگر جنوبی امریکی ملک نے سب سے پہلے اس کے نتائج جاری کیے۔

امریکا اور برطانیہ کی ویکسینز کے مقابلے میں کورونا ویک کی بیماری سے تحفظ کی شرح کم ہے مگر چین نے کسی ویکسین کی منظوری کے لیے کم از کم 50 فیصد کی شرط رکھی ہے۔

ٹاؤ لینا نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ 3 چینی ویکسینز کو مارکیٹ میں فراہم کرنے کے لیے منظوری بیک وقت مل جائے۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی پر پہلے ڈیٹا کو جاری کرنے کا دباؤ ہوگا، خاص طور پر اس وقت جب اس کی افادیت کی شرح امریکی ویکسینز جتنی زیادہ نہیں ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر حقیقی سوچ ہوگی کہ ابتدائی مرحلے میں کسی ویکسین کی افادیت کی شرح کا ہدف 90 فیصد رکھا جائے۔

انہوں نے کہا کہ چینی سائنسدان جانتے تھے کہ ان کی روایتی ویکسینز ممکنہ طور پر ایم آر این اے ویکسینز جتنی موثر نہ ہو، مگر چین نے اگلی نسل کی ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی ویکسین کی تیاری کے لیے پلانٹ کی تیاری شروع کردی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں