چین سے سفارتی و فوجی مذاکرات کا معنی خیز نتیجہ برآمد نہیں ہوا، بھارتی وزیر دفاع

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2020
دونوں فریقین ابھی بھی سرحدی صورتحال پر پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں، راج ناتھ سنگھ — فائل فوٹو:رائٹرز
دونوں فریقین ابھی بھی سرحدی صورتحال پر پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں، راج ناتھ سنگھ — فائل فوٹو:رائٹرز

بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان ہمالیائی سرحد پر تنازع کے خاتمے کے لیے ابھی بھی پیش قدمی ہونا باقی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب دونوں ممالک کے ہزاروں فوجیوں کو پہاڑی علاقے میں جما دینے والی ٹھنڈ کا سامنا ہے۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ سفارتی اور فوجی مذاکرات کے متعدد ادوار سے کوئی معنی خیز نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے، جس کا مقصد کئی دہائیوں سے ایٹمی مسلح ہمسایہ ممالک کے درمیان بدترین سرحدی محاذ آرائی کو کم کرنا تھا۔

رائٹرز کے شراکت دار 'اے این آئی' کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اگر حالات ایسے ہی رہے تو فوجی تعیناتی میں کمی نہیں آئے گی'۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین ابھی بھی سرحدی صورتحال پر پیغامات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور فوجی مذاکرات کا ایک اور دور بھی اپنے انجام پر پہنچنے والا ہے۔

مزید پڑھیں: بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے دوبارہ بات چیت

واضح رہے کہ بھارت اور چین کی افواج، سفارتی اور سیاسی عہدیداروں کے درمیان متعدد مذاکرات کے ادوار ہو چکے ہیں۔

ان میں گزشتہ ماہ ماسکو میں وزرائے خارجہ اور وزرائے دفاع کے درمیان بات چیت شامل ہے۔

اگرچہ مؤقف برقرار ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ بات چیت نے سرحد کے ساتھ ہی صورتحال کو پرسکون کردیا ہے کیونکہ اب ایک ماہ سے کوئی نئی فوجی جارحیت کی اطلاع نہیں ملی ہے۔

10 ستمبر کو دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے قبل فوجی سطح کے مذاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ان کی فوج کو سرحدی تنازع سے دستبردار ہوجانا چاہیے، مناسب فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے اور کشیدگی کو کم کرنا چاہیے۔

وزرائے خارجہ نے فوجیوں، توپ خانوں، ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں سے دستبرداری کے لیے کوئی ٹائم لائن طے نہیں کی جو مئی میں پہلی مرتبہ کشیدگی کے بعد سے اس خطے میں موجود ہے۔

فوجی ماہرین نے بار بار متنبہ کیا تھا کہ لداخ سے باہر کسی بھی سمت سے غلطی کے تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

بھارت اور چین، دونوں نے بہت کم معلومات فراہم کیں تاہم دونوں ممالک کے میڈیا نے بڑھتے ہوئے تناؤ کو وسیع کوریج دی ہے جس نے ان کے باہمی تعلقات کو ڈرامائی انداز میں تبدیل کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سرحدی کشیدگی: بھارت اور چین کے فوجی کمانڈرز کی دوبارہ ملاقات

مئی سے شروع ہونے والی کشیدگی جون میں دہائیوں کی مہلک ترین ہوگئی تھی جہاں پتھراؤ اور ہاتھا پائی سے 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ چین کو بھی جانی نقصان ہوا ہے تاہم اس نے کوئی تفصیل نہیں بتائی تھی۔

اس جھڑپ کے بعد دونوں ممالک وادی گلوان اور دو دیگر مقامات سے جزوی طور پر دستبردار ہوگئے تھے تاہم کم از کم تین دیگر علاقوں میں اب بھی یہ بحران جاری ہے جس میں پینگونگ جھیل کا علاقہ بھی شامل ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اکثر تناؤ کا شکار رہتے ہیں جس کی ایک وجہ ان کی غیر منقسم سرحد ہے۔

دونوں ممالک نے 1962 میں ایک جنگ بھی لڑی تھی جو لداخ تک پھیل گئی تھی اور ایک معاہدے پر اس جنگ کا اختتام ہوا تھا۔

اس معاہدے میں انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف سرحدی علاقے میں اسلحہ استعمال نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں